کیا فتویٰ دینے کے لیے مفتی بہ قول کی دلیل معلوم ہونا ضروری ہے؟
پس میں (ابنِ نجیم) 2 کہتاہوں کہ یہ شرط اکا بر کے زمانے میں تھی۔ اب ہمارے زمانے میں فتویٰ دینے کے لیے صرف مسئلے کا اچھی طرح محفوظ ہونا کافی ہے، جیسا کہ قنیہ وغیرہ میں ہے۔ پس امام صاحب ؒ کے قول پر فتویٰ دینا نہ صرف جائز ہے، بلکہ واجب ہے، اگر چہ ہمیں معلوم نہ ہو کہ امام صاحب نے وہ بات کہاں سے فر مائی ہے۔ بناء علی ہذاحاوی قدسی 1 میں جس قول کو صحیح قرار دیا ہے، یعنی قوتِ دلیل کے معتبر ہونے کا قول تو وہ اسی شرط پر مبنی ہے، مگر اب علما نے طے کر دیا ہے کہ امام اعظم کے قول پر فتویٰ دیا جائے گا، (دلیل جاننے کی شرط ختم کردی ہے) تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ذمے امام صاحب کے قول پر فتویٰ دینا واجب ہے۔ اگرچہ مشایخ نے امام صاحب کے قول کے خلاف فتویٰ دیا ہو، کیوںکہ ان حضرات نے امام صاحب کے قول کے خلاف فتوی اس لیے دیا تھا کہ ان کے حق میں امام اعظم کے قول پر فتویٰ دینے کی شرط مفقود تھی، اور وہ شرط امام صاحب کے قول کی دلیل سے واقف ہونا تھی، رہے ہم تو امام صاحب کے قول پر فتویٰ دیں گے اگر چہ ہمیں ان کے قول کی دلیل معلوم نہ ہو۔ (کیوں کہ دلیل جاننے کی شرط ہمارے لیے باقی نہیں رہی)۔
اور محقق ابن الہمام ؒ نے متعدد مواقع میں مشائخ پر جہاں انھوں نے صاحبین کے قول پر فتویٰ دیا ہے، یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ امام صاحب کے قول سے عدول صرف دلیل کی کمزوری کی صورت میں کیا جاسکتا ہے (علامہ کی اس بات کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر جگہ امام صاحب کے قول پر فتویٰ دینا ضروری ہے، اور اگر کوئی شبہ کرے کہ علامہ نے تو دلیل کا بھی اعتبار کیا ہے کہ جب امام صاحب کی دلیل قوی ہو تو اس پر فتویٰ دینا ضروری ہے، دلیل ضعیف ہوتو اس سے عدول کیا جاسکتا ہے، اس صورت میں امام صاحب کے قول پر فتویٰ دینا ضروری نہیں ہے، تو ابنِ نجیم اس کا جواب دیتے ہیں) لیکن علامہ ابن الہمام دلیل میں غور وفکر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے (اس لیے ان کے حق میں دلیل کا اعتبار ہے)، اور جولوگ دلیل میں غوروفکر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کے ذمے امام صاحب کے قول پر فتویٰ دینالازم ہے۔
اہلیتِ نظر: اور یہاں اہلیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی فقہ کو خوب جانتا ہو، فقہا کے اقوال کے درمیان امتیاز کر سکتاہو، اور اس میں بعض اقوال کو بعض پر ترجیح دینے کی پوری صلاحیت ہو۔
اہلیتِ فتویٰ: اور کوئی شخص فتویٰ دینے کا اس وقت تک اہل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے درست جوابوں کی تعداد نادرست جوابوں سے زیادہ نہ ہو جائے، کیوں کہ جب درست جوابات کی تعداد زیادہ ہوگی تو وہی غالب ہوں گے اور غالب کے مقابلے میں مغلوب کا اعتبار نہیں کیا جاتا، کیوں کہ امورِ شرعیہ کا مدار اعم واغلب پر ہے جیساکہ فتاویٰ و لوالجیہ کی کتاب القضاء میں ہے، اور علامہ کردری کی کتاب مناقب الإمام الأعظم میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن المبارک ؒ سے دریافت