قول کو علا مہ ابن الہمام نے ضعیف قراردیا ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ مطلقاً فتویٰ دینا جائز ہے۔ یعنی خواہ وہ مآخذ سے واقف ہو یانہ ہو، اور خواہ کوئی مجتہد موجود ہو یانہ ہو۔ یہ قول صاحبِ بدیع علامہ ابن الساعاتی 1 کا اور بہت سے علما کا مختار ہے، کیوں کہ وہ مفتی محض ناقل ہے اور نقل میں عالم (مجتہد) وغیر عالم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
مگر ان حضرات کی دلیل کا یہ جواب دیاگیا ہے کہ نقل کے سلسلے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف تخریج کے سلسلے میں ہے، کیوں کہ کسی مجتہد کے مذہب کو بعینہ نقل کرنا، قبولِ روایت کی شرائط مثلاً عدالت وغیرہ کے ساتھ بالاتفاق جائز ہے (دونوں کتابوں کی عبارت تلخیص کر کے پیش کی گئی ہے، اور وہ یہاں پوری ہوئی ۔ دیکھیے: التقریر (۳/۳۴۶)
فوائد: میں (علامہ شامی )کہتاہوں کہ سراج الدین ہندی ؒ کی ذکر کردہ باتوں سے درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں۔
۱۔ یہ بات کہ لا یحل لأحد أن یفتي إلخ امام اعظم ؒ کے اقوال کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ان تلامذہ کے اقوال کی صورتِ حال بھی یہی ہے۔
۲۔ مجتہد فی المذہب سے مراد سابق میں ذکر کر دہ طبقاتِ سبعہ میں سے تیسرے طبقے کے لوگ ہیں (دوسرے طبقے کے حضرات مراد نہیں ہیں، کیوں کہ ہندی نے امام ابویوسف اور امام زفر وغیرہما کے قول پر بحث کی ہے، اور یہ حضرات دوسرے طبقے کے ہیں)۔
۳۔ دوسرے طبقے والے جوامام اعظم ؒ کے تلامذہ ہیں وہ مجتہدِ مطلق ہیں، البتہ وہ امام اعظم ؒ کی ان کے اکثر اصول وضوابط میں تقلید کر تے ہیں، اور اس تقلید کی دوبنیادیں ہوسکتی ہیں۔
الف۔ یاتو اس وجہ سے تقلید کر تے ہیں کہ ایک مجتہد کے لیے دوسرے مجتہد کی تقلید جائز ہے، اور اس مسئلے میں امام صاحب ؒ سے دو روایتیں مروی ہیں۔ اور جواز کی روایت کی تائید امام ابویوسف ؒ کے ایک واقعے سے ہوتی ہے کہ جب آپ نے جمعہ کی نماز پڑھ لی تو لوگوں نے آپ کو بتایا کہ حمام کے حوض میں چوہاپایا گیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ’’ہم اہلِ مدینہ (امام مالک ؒ )کی تقلید کرتے ہیں ‘‘اور امام محمد ؒ سے مروی ہے کہ مجتہدِ مطلق اپنے سے بڑے ذی علم کی تقلید کر سکتاہے۔
ب۔ یا اس وجہ سے تقلید کرتے ہیں کہ ان کا اجتہاد اس مسئلے میں امام اعظم ؒ کے اجتہاد کے موافق ہوگیا ہے۔ چناں چہ