سببِ تسامح: اور سببِ تسامح نقلِ عبارت میں غلطی یاسبقتِ نظر ہوتی ہے، یعنی عبارت نقل کرتے وقت نظر ہٹ جاتی ہے، اور درمیان سے کچھ عبارت چھوٹ جاتی ہے، جس کی وجہ سے مفہوم غلط ہوجاتا ہے۔
حاشیہ شامی کی خوبی: میں نے (علامہ شامی نے) اپنے حاشیہ ردالمحتار میں اس قسم کے تسامحات پرتنبیہہ کی ہے، کیوںکہ میں نے اس حاشیہ کی تصنیف کے وقت متقد مین کی ان کتابوں کی مراجعت کا التزم کیاہے جن کی طرف یہ حضرات مسائل منسوب کرتے ہیں۔ میں ایسی جگہوں میں اصل عبارت ذکر کرتا ہوں، جس کو نقل کر نے میں سہو واقع ہوا ہے، پھر اس کے ساتھ مزید حوالے بڑھاتا ہوں، جن سے اصل عبارت کی تائید ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے وہ حاشیہ بے نظیر ہے۔ اس کی تحصیل سے کوئی شخص بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ دست بدعا ہوں کہ اﷲتعالیٰ اس کی تکمیل میں میری مدد فرمائیں۔
متاخرین کی کتابوں میں بھی تسامحات ہیں: الغرض کم واقفیت رکھنے والا شخص جب کسی مسئلے کو ایک یازیادہ کتابوں میںدیکھ لیتا ہے تو وہ گمان کرتا ہے کہ یہی مذہب ہے، اور وہ اسی پر فتویٰ دے دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ متاخرین کی کتابیں ہیں، جو متقدمین کی کتابوں سے بخوبی واقف تھے، انھوں نے اپنی کتابوں میں معمول بہا مسائل ہی لکھے ہوں گے، حالاں کہ یہ کوئی قاعدئہ کلیہ نہیں ہے، بلکہ اکثری قاعدہ ہے۔ متاخرین سے اس کے خلاف بھی باتیں وقوع پذیر ہوئی ہیں، جیساکہ ہم نے بیان کیا۔
میں نے (علامہ شامی نے ) ایک بار وقف کے ایک مسئلے میں 1 عام کتابوں کے مطابق فتویٰ دیا، اس مسئلے میں عمدۃالمتاخرین علامہ علاء الدین حصکفی ؒ پر معاملہ مشتبہ ہوگیا۔ انھوں نے درمختار میں اس مسئلے کو خلاف صواب ذکر فرمایا ہے۔ میرا وہ فتویٰ ملک کے بعض مفتیوں کے ہاتھ لگ گیا۔ انھوں نے اس کی پشت پر میرے فتویٰ کے خلاف اور درمختار کے مطابق فتویٰ لکھا اور بعض نے تویہ بھی لکھا کہ:
’’علائی (درمختار) میں جس طرح مسئلہ ہے وہی معمول بہاہے، کیوںکہ وہ متاخرین میں معتمد علیہ ہیں۔ ‘‘
نیز یہ بھی لکھا کہ:
’’اور اگر تمہارے پاس اس کے خلاف دلیل ہے تو اس کو قبول نہیں کریں گے۔ ‘‘
دیکھا آپ نے جہلِ عظیم! اور احکامِ شرعیہ میں تہور ودلیری! اور کتابوں کی طرف مراجعت کیے بغیر اورعلم کے بغیر