کردری ؒ کا میلان اسی قول کی طرف ہے۔
مفہومِ مخالف اس وقت حجت ہے جب وہ صراحت کے خلاف نہ ہو: اور میرا قول: ما لم یخالف لصریح ثبتا (جب تک مفہومِ مخالف کسی صریح ثابت شدہ بات کے خلاف نہ ہو) یعنی مفہومِ مخالف اس تفصیل کے مطابق حجت ہے جوہم نے بیان کی بشرطیکہ وہ کسی صریح بات کے خلاف نہ ہو، کیوںکہ صریح بات مفہوم پر مقدم ہوتی ہے، جیسا کہ طرسوسی وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے، اور ائمہ اصول نے اس کو ادلہ کی ترجیح کی بحث میں ذکر کیا ہے۔ کیوںکہ جوحضرات دلائلِ شرعیہ میں مفہومِ مخالف کے معتبر ہونے کے قائل ہیں وہ اسی صورت میں اس کا اعتبار کرتے ہیں جب کوئی صریح بات اس کے خلاف موجود نہ ہو، ورنہ صریح کو مقدم کیا جائے گا، اور مفہوم کو لغوکردیا جائے گا۔ واللہ اعلم
۶۹
وَالْعُرْفُ فِي الشَّرْعِ لَہٗ اعْتِبَارْ
لِذَا عَلَیْہِ الْحُکْمُ قَدْ یُدَارْ
عرف کا شریعت میں اعتبار ہے۔اسی وجہ سے کبھی اس پر حکم کا مدار رکھاجاتا ہے۔
عرف کی تعریف: مستصفٰی میں فرمایا کہ ’’عرف وعادت وہ ہے جوعقل کی روسے دلوں میں جم جائے، اور اس کو سلیم فطر تیں قبول کرلیں۔‘‘
عادت کی تعریف: اور التحریر کی شرح میں ہے کہ ’’عادت وہ بات ہے جو کسی عقلی ربط کے بغیر باربار پیش آئے۔
عرف و عادت کا اعتبار: اورالاشباہ والنظائر (ص: ۹۳) میں ہے کہ ’’چھٹا قاعدہ: عادت فیصلہ کن چیزہے (العادۃ محکمۃ)1 ، اوراس کی بنیاد یہ حدیث ہے کہ:
مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ۔ 2
’’جس چیز کو سب مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی چیز ہے۔‘‘