اور علامہ قاسم نے ایک دوسرے رسالے میں لکھا ہے کہ میں بفضلہ تعالیٰ وہی بات کہتاہوں جو امام طحاوی ؒ 1 نے ابن حربویہ سے کہی تھی کہ لایقلد إلا عصبي أو غبي (تقلید یا تو متعصب آدمی کرتا ہے یا غبی)
ابنِ نجیم کا مقام: اور صاحبِ بحر کے اس قول سے کہ یجب علینا الإفتاء بقول الإمام إلخ۔ (بحر۶/۲۷۰) یعنی ہمارے لیے امام اعظم کے قول پر فتویٰ دینا واجب ہے۔ اس قول سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ خود ابنِ نجیم دلیل میں غوروفکر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پس اگر وہ دوسرے فقہا کی تصریح کے خلاف کسی قول کی تصحیح کریں تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، چہ جائے کہ قواعدِ کلیہ پر ان کی تخریجات واستنباطات کا اعتبار کیا جائے !
اور علامہ بیری ؒ کی رائے صحیح نہیں ہے۔ انھوں نے ابنِ نجیم کی الأ شباہ میں جہاں یہ عبارت آئی ہے النوع الا ول: معرفۃ القواعد إلخ (ص: ۱۵) یعنی پہلی نوع ان قواعد کے سلسلے میں ہے جن کی طرف جزئیات لوٹائی جاتی ہیں، اور جن پر احکام کی تفریع کی جاتی ہے، اور وہ قواعد درحقیقت فقہی ضوابط ہیں۔ جن کے جاننے سے فقیہ اجتہاد کے درجے تک ترقی کرتا ہے، اگر چہ وہ اجتہاد فتویٰ میں ہو، اور میں ان ضوابط کی بیشتر جزئیات جاننے میں کامیاب ہوگیاہوں الخ، جہاں یہ عبارت آئی ہے وہاں علامہ بیری نے پہلے مجتہد فی المذہب کی تعریف کی ہے، جو ہم ان کے حوالے سے پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ:
’’اور اس عبارت میں اس طرف اشارہ ہے کہ مصنف یعنی علامہ ابنِ نجیم فتویٰ میں اس مرتبے تک بلکہ اس سے کچھ اوپر تک پہنچ چکے ہیں، اور یہ درحقیقت اﷲ تعالیٰ کا ان پر فضل وکرم ہے کہ ان کو مخفی گوشوں سے واقف کردیا، اور وہ پوری واقفیت رکھنے والے حفاظ میں سے تھے‘‘۔
علامہ بیری ؒ کی یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اس قسم کی بیش ترفروع جاننے میں علامہ ابنِ نجیم کی کامیابی سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں دلائل میں غور وفکر کرنے کی صلاحیت بھی ہو، بحر کی ان کی اپنی عبارت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ ان کو یہ صلاحیت حاصل نہیں تھی، اور مجتہد فی المذہب کے لیے اس صلاحیت کا حصول شرط ہے، اب آپ غور کرلیں۔
۳۴
ثُمَّ إِذَا لَمْ تُوْجَدِ الرِّوَایَہْ
عَنْ عُلَمَائِنَا ذَوِی الدِّرَایَہْ