مذکورہ بالا وجوہِ ترجیح درج ذیل دوصورتوں میں ہیں۔
۱۔ جب تصحیح میں تعارض ہو، کیوں کہ اس صورت میں دونوں قولوں میں سے ہر ایک قول صحت میں دوسرے قول کے ہم پلہ ہوگا، اس لیے جب ان میں سے کسی ایک قول میں کسی اور جہت سے زیادہ قوت پیداہوگی تو اس قول پر بہ نسبت دوسرے قول کے عمل کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔
۲۔ اسی طرح جب دو قولوں میں سے کسی بھی قول کی صراحتاً تصحیح نہ کی گئی ہو تو اس قول کو مقدم کیا جائے گا جس میں مذکورہ بالا وجوہِ ترجیح میں سے کوئی وجہ پائی جاتی ہو، مثلاً اس قول کامتون میں ہونا، یا امام اعظم کا قول ہونا، یاظاہرِ روایت ہونا إلی آخرہ۔
۶۸
وَاعْمَلْ بِمَفْھُوْمِ رِوَایَاتٍ أَتَی
َمالَمْ یُخَالِفْ لِصَرِیْحٍ ثَبَتَا
اور آپ ان روایتوں کے مفہوم پر عمل کریں جو وارد ہوئی ہیں۔ جب تک وہ کسی صریح ثابت شدہ بات کے خلاف نہ ہو۔
مفہوم اور اس کی اقسام:
یہ بات جان لے کہ مفہوم 1 کی دوقسمیں ہیں :
۱۔ مفہومِ موافق: اور وہ یہ ہے کہ الفاظ مسکوت 2 (غیر مذکور )کے لیے منطوق 3 (مذکور )کا حکم ثابت ہونے پر دلالت کریں، کلام کو محض زبان کے محاورات کے اعتبار سے سمجھنے کی وجہ سے، یعنی وہ دلالت کرنا غوروفکر اور رائے واجتہاد پرموقوف نہ ہو، جیسے {فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ} 4 (ماں باپ کو ’’ہوں‘‘بھی مت کہو)کی دلالت مارنے کی حرمت پر، اس کا