مختلف فیہ مسائل میں کس کے قول پر فتویٰ دیا جائے ؟ ابھی جو باتیں ہم نے بیان کی ہیں ان سے آپ نے یہ بات جان لی ہوگی کہ جس مسئلے میں ہمارے ائمہ متفق ہوں اس میں کسی مجتہد فی المذہب کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اپنی رائے سے ان ائمہ کی متفقہ رائے سے عدول کرے، کیوںکہ ان کی رائے اس کی رائے سے زیادہ صحیح ہے۔ اب میں نے ان اشعار میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جب ائمہ میں اختلاف ہوتو اس قول کو مقدم کیا جائے گا جس کو امام اعظم ؒ نے پسند کیاہے، خواہ تلامذہ میں سے کسی نے آپ کی موافقت کی ہو یانہ کی ہو، اور اگر امام اعظم کا کوئی قول موجود نہ ہو تو اس قول کومقدم کیاجائے گا جس کو امام ابویوسف ؒ نے پسند کیا ہے۔
فائدہ: اور امام ابویوسف ؒ کا اسمِ گرامی یعقوب ہے، آپ امام صاحب کے سب سے بڑے شاگرد ہیں۔ اور امام محمد ؒ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ امام ابویوسف ؒ کا تذکرہ کنیت کے ساتھ کیاکرتے تھے، مگر جب ان کا تذکرہ ان کے استاذ امام ابوحنیفہ ؒ کے ساتھ کرتے تو نام ذکر کرتے اور اس طرح کہا کرتے: یعقوب عن أبي حنیفۃ ؒ (یعقوب روایت کرتے ہیں امام ابوحنیفہ ؒ سے)۔ اور اس بات کی تاکید ان کو خود امام ابویوسف ؒ نے کی تھی، تاکہ استاذ کا ادب ملحوظ رہے۔ اﷲ تعالیٰ سب ہی حضرات پر مہربانی فرمائیں، اور ہم پر بھی ان کی بر کت سے رحم فر مائیں اور ان کا نفع تا قیامت قائم و دائم رکھیں ۔ (آمین) (تمت الفائدۃ)
اور جہاں امام ابویوسف ؒ کا بھی کوئی قول موجود نہ ہو تو امام محمد ؒ کا قول مقدم کیا جائے گا، جوامام ابویوسف ؒ کے بعد امام اعظم کے سب سے بڑے شاگرد ہیں۔
پھر ان کے بعد امام زفر اور امام حسن بن زیادکے اقوال دوسرے تلامذہ کے اقوال پر مقدم کیے جائیں گے۔ ان دونوں حضرات کے اقوال ایک ہی درجے میں ہیں مگر النہر الفائق میں ثم بقول الحسن ہے، یعنی حضرت حسن کا درجہ امام زفر کے بعد ہے۔
اور اگر مسئلہ مختلف فیہ ہو، ایک طرف تنہا امام صاحب ہوں اور دوسری طرف تلامذہ ہوںتو ایک قول یہ ہے کہ مفتی کو اختیار ہے جس کے قول پر چاہے فتویٰ دے، اور دوسری رائے یہ ہے کہ صرف مجتہد مفتی کو اختیار ہے، وہ اس قول کو اختیار