اور خود مجھے عرصہ تک کي الحمصۃ میں مبتلا رہنا پڑا ہے، اور اس قول کے علاوہ میری سمجھ میں کوئی دوسری صورت نہیں آتی تھی، جس کی روسے ہمارے مذہب کے مطابق بلامشقت میری نماز درست ہو جائے، اس لیے کہ زخم سے نکلنے والی رطوبت اگر چہ تھوڑی ہوتی تھی، مگر اس کی مجموعی مقدار اتنی ہوتی تھی کہ اگر وہ چھوڑدی جاتی تو ضرور بہہ جاتی، اور مشہور قول کے مطابق ایسی رطوبت ناپاک اور ناقضِ وضو ہے۔اس میں بعض حضرات کا اختلاف بھی ہے، جو میں نے اپنے مذکورہ رسالے میں بیان کیا ہے۔
اور اس قسم کی رطوبت کی وجہ سے آدمی صاحبِ عذر نہیں ہوتا، کیوںکہ اس کو روکنا ممکن ہے، اس طرح کہ ہرنماز کے وقت جگہ کو دھو لیا جائے، اور چمڑے وغیرہ سے کس کرمضبوط باندھ لیا جائے تو وہ بہاؤ کو روک دے گا، اور میںایسا ہی کرتا تھا، مگر اس میں دشواری اور بہت تنگی تھی۔ اس لیے میں نے مجبوراً اس قول کی پیروی کی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بیماری سے شفابخشی تو میں نے بیماری کے زمانے کی تمام نمازوں کا اعادہ کیا وللّٰہ الحمد۔
اور البحر الرائق کے مصنف نے باب الحیض (۱/۱۵۳)میں حیض کے رنگوں کی بحث میں چند ضعیف اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:
معراج الدرایہ میں فخرالائمہ سے نقل کیاگیا ہے کہ اگر کوئی مفتی ضرورت کی جگہوں میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ان اقوال میں سے کسی قول پر فتویٰ دے تو یہ اچھی بات ہوگی۔
اور اس قول سے یہ بات معلوم ہوئی کہ:
۱۔ مجبور آدمی اپنے ذاتی عمل کے معاملے میں ضعیف قول پر عمل کرسکتا ہے، جیساکہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
۲۔ اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مفتی مجبور شخص کو ضعیف قول کے مطابق فتویٰ بھی دے سکتا ہے ۔
پس جوبات اوپر گزر چکی ہے کہ ضعیف قول پر آدمی کے لیے عمل بھی جائز نہیں ہے، اور اس پر فتویٰ دینا بھی جائز نہیں ہے وہ بات محلِ ضرورت کے علاوہ پر محمول ہے، جیساکہ مجموعی بحث سے یہ بات آپ کے علم میں آچکی ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ أعلم
ملحق بالضرورۃ: اور ضرورت کے ساتھ اس بات کو بھی لاحق کرنا مناسب ہے جوہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ کسی ایسے مسلمان کے کفر کا فتویٰ نہیں دینا چاہیے کہ اس بات کے کفر ہو نے میں اختلاف ہو، اگرچہ ضعیف روایت کی رو سے وہ اختلاف پیدا ہوا ہو، کیوں کہ علماء نے کفر کے معاملے میں ضعیف روایت کی موجود گی میں صحیح قول پر فتویٰ دینے سے عدول کیا ہے، اس لیے کہ کفر نہایت سنگین بات ہے۔
بیری کی بات اور اس کی تاویل: اور علامہ بیری ؒ کی شرح اشباہ میں ہے کہ: