ابن الہمام التحریر میں لکھتے ہیں:
مسئلہ: ’’جوشخص مجتہد مطلق نہیں ہے اس پر تقلید لازم ہے۔ اگر چہ وہ فقہ کے بعض مسائل میں یا بعض علوم میں مثلاً علم الفرائض میں مجتہدِ مطلق ہو، اجتہاد میں تجزی (تقسیم) کے جواز کے قول کی بنا پر، اور یہی قول بر حق ہے۔ لہٰذا جن مسائل میں وہ اجتہاد پر قادر نہیں ہے دوسروں کی تقلید کرے گا۔ اور عالم (جاننے والے) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس پر تقلید اس شرط کے ساتھ لازم ہے کہ اس کے لیے مجتہد کی دلیل کی صحت واضح ہو، ورنہ عالم کے لیے اس کی تقلید جائز نہیں ہے الخ۔‘‘ (التقریر: ۳/۳۴۴)
اور پہلا قول جمہور کا ہے، اور دوسرا قول بعض معتزلہ کا، جیسا کہ تحریر کے شارح نے بیان کیا ہے، پس امام ابن الہمام کا یہ قول کہ جو شخص مجتہد مطلق نہیں ہے اس پر تقلید لازم ہے، اور تقلید کی وہ تعریف جوہم اوپر ذکر کر آئے ہیں، دونوں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دلیل کا جاننا صرف مجتہدِ مطلق پر ضروری ہے۔ دوسروں پر یہ بات لازم نہیں ہے۔ خواہ وہ دوسرامجتہد فی المذہب ہی کیوں نہ ہو۔ (خلاصئہ اعتراض یہ ہے کہ جمہور کے قول کے مطابق مجتہد فی المذہب مفتی بھی عام مقلدین کی طرح ہے، اس کے لیے بھی قولِ امام کی دلیل جاننا ضروری نہیں ہے، پس امام صاحب کے قول کا پہلا مطلب درست نہیں ہے۔)
جواب: لیکن التحریر کے شارح علامہ ابن امیر حاج ؒ نے شافعی عالم علامہ بدرالدین زرکشی 1 سے نقل کیا ہے کہ:
’’مجتہد فی المذہب کو آنکھ بند کر کے محض عامی کے ساتھ لاحق کرنا محلِ نظر ہے، خاص طور پر مذاہبِ اربعہ کے وسیع علم رکھنے والے متبعین کو، کیوں کہ ان حضرات نے اپنے آپ کو عام مقلدین کے مقام پر کھڑا نہیں کیا ہے، اور ان کو مجتہدین کے ساتھ لاحق کرنا بھی ممکن نہیں ہے، کیوںکہ ایک مجتہد دوسرے مجتہد کی تقلید نہیں کر تا، اور دونوں درجوں کے درمیان کوئی واسطہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ حالتیں کل دوہی ہیں۔ ابن المنیرکہتے ہیں کہ مختار یہ ہے کہ یہ حضرات مجتہد ہیں، مگر انھوں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ وہ کوئی نیا مذہب شروع نہیں کریں گے، اور ان کے مجتہد ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ان میں اجتہاد کی صلاحیتیں موجود ہیں، اور ان کے اس التزام کی وجہ کہ وہ کوئی نیامذہب شروع نہیں کریں گے یہ ہے کہ کوئی ایسا نیا مذہب شروع کر نا جس کی جملہ فروعات کے لیے ایسے اصول وقواعد ہوں جو متقدمین کے اصولوں سے علیحدہ ہوں تقریباً نا ممکن ہے، کیوں کہ متقدمین نے تمام ممکن صورتوں کااحاطہ کرلیا ہے۔ ہاں وہ کسی ضابطے میں کسی امام کی تقلید کر سکتے ہیں، پھر اگر کسی خاص جزئیے میں ان کے لیے اپنے امام کے علاوہ کسی اور امام کے قول کی صحت ظاہر ہوجائے تو اس وقت ان کے لیے اپنے امام کی تقلید جائز نہ ہوگی، مگر اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ متقدمین کی نظر بہت وسیع