جو أصح کہتا ہے۔ کیوں کہ صحیح کا مقابل فاسدہے۔ اور اصح کا مقابل صحیح ،پس جو اصح کہتا ہے وہ صحیح کہنے والے کی موافقت کرتا ہے۔ اس مسئلے کے صحیح ہونے میں۔ اور رہاوہ جوصحیح کہتا ہے تو اس کے نزدیک دوسراحکم فاسد ہے، پس اس قول کو لینا جس کے صحیح ہونے پر دونوں متفق ہیں زیادہ بہتر ہے اس قول کو لینے سے جوان میں سے ایک کے نزدیک فاسد ہے۔
اور علامہ ابن عبدالرزاق 1 نے الدر المختار کی شرح مفاتیح الأسرار میں ذکر کیا ہے کہ جمہور کے نزدیک مشہوریہ ہے کہ أصح، صحیح سے زیادہ موکد ہے، اور علامہ بیری ؒ کی شرح اشباہ میں ہے کہ فقہ شافعی کی کتاب الطراز المذھب لأحکام المذھب 2 میں حاشیہ بزدوی سے نقل کرتے ہوئے فرمایاہے کہ:
’’ھوالصحیح چاہتا ہے کہ دوسراقول غیر صحیح ہو، اور لفظ الأ صح چاہتا ہے کہ دوسرا قول صحیح ہو، میں کہتا ہوں کہ اس میں اکثر کی قید بڑھانی مناسب ہے، کیوںکہ ہم نے أصح کا مقابل روایتِ شاذہ کو بھی پایا ہے، جیساکہ شرحِ مجمع میں ہے إلخ۔‘‘
اور درِمختار (۱/۵۴) میں کبیری کی مذکورہ بالا عبارت کا خلاصہ نقل کرنے کے بعد علائی نے لکھا ہے کہ پھر میں نے رسالہ آداب المفتی میں دیکھا کہ:
۱۔ جب کسی معتمد کتا ب میں کسی روایت کے آخر میں أصح، أولی، أوفق یا اس کے مانند الفاظ بڑھائے جائیں تو مفتی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس روایت پر فتویٰ دے، اور اس کے بر خلاف روایت پر بھی فتوی دے۔ دو نوں میں سے جس پر چاہے وہ فتویٰ دے سکتا ہے۔
۲۔ اور جب کسی روایت کے آخر میں صحیح، مأخوذ بہ، بہ یفتی یا علیہ الفتوی بڑھایا جائے تو مفتی اس کے برخلاف روایت پر فتوی نہیں دے سکتا۔
۳۔ مگرمثال کے طور پر ہدایہ میں ھو الصحیح ہو، اور کافی میں اس کے بر خلاف روایت کے لیے ھو الصحیح کہاگیا ہو تو مفتی کو اختیار ہوگا وہ اپنی دانست میں قوی تر، زیادہ مناسب اور مفید تر قول کو اختیار کرے گا(آداب المفتی کی عبارت پوری ہوئی)، لہٰذا یہ باتیں یاد رکھنی چاہییں (دُرِ مختار کی عبارت پوری ہوئی)۔
خلاصۃ المرام: میں کہتاہوں کہ ان سب عبارتوں کا حاصل درج ذیل امور ہیں:
۱۔ جب دو روایتوں میں سے ہر ایک کی ایک ہی لفظ سے تصحیح کی گئی ہو، مثلاً دو نوں میں سے ہر ایک کے لیے ھو الصحیح یا ھو الأصح یا بہ یفتی کہاگیا ہوتو مفتی کو اختیار ہوگا۔
۲۔ اور جب تصحیح کے الفاظ مختلف ہوں تو اگر ان میں سے ایک میں فتوی کا لفظ ہوتو وہ قول اولیٰ ہے، کیوں کہ فتوی صحیح قول پر ہی دیاجاتا ہے، اور ہر صحیح قول مفتی بہ نہیں ہوتا، اس لیے کہ فی نفسہ صحیح قول پر بھی کبھی فتوی نہیں دیا جاتا ، بایں وجہ کہ