کیاگیا کہ آدمی کے لیے فتویٰ دینا اور قاضی بننا کب جائز ہے؟تو آپ نے جواب دیاکہ:
’’جب آدمی حدیث شریف اور قیاس سے پوری طرح واقف ہوجائے، اور وہ امام اعظم کے اقوال کوپوری طرح جانتاہو اور وہ اس کو خوب محفوظ ہوں ۔‘‘
(یہاں ایک بار پھر یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ امام ابن المبارک دلیل کا اعتبار کر رہے ہیں۔ وہ مفتی کے لیے حدیث وقیاس کی معرفت ضروری قرار دے رہے ہیں۔ ابنِ نجیم اس کا جواب دیتے ہیں) اور عبداﷲ بن المبارک کا یہ قول ہمارے علما کی دوروایتوں میں سے ایک پر محمول ہے (وہ دو روایتیں یہ ہیں:
۱۔ فتویٰ دینے کے لیے مفتی بہ قول کی دلیل معلوم ہونا ضروری ہے۔
۲۔ ضروری نہیں ہے۔ ابن المبارک کا قول پہلی روایت پر مبنی ہے ) اور مذہب کے آخری شکل اختیار کرنے سے پہلے کی بات ہے۔ اب مذہب کے مدلل ہوجانے کے بعد ان امور کی (یعنی حدیث و قیاس کو جاننے کی ) کوئی حاجت نہیں، کیوں کہ اب مفتی اور قاضی کے لیے تقلید ممکن ہے (علامہ ابن نجیم کی عبارت پوری ہوئی)۔
غیرمجتہد مفتی صرف ناقلِ فتاویٰ ہوتاہے:
رملی کا ابنِ نجیم پر رد: میں (علامہ شامی) کہتاہوں کہ ابنِ نجیم کے اس کلام میں جو بے ربطی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں۔ اسی وجہ سے خیرالدین رملی ؒ نے بحر کے حاشیے
مظہر الحقائق 1 میں اس عبارت پر اعتراض کیا ہے کہ ابنِ نجیم کا یہ فرمانا کہ ’’ہمارے لیے امام صاحب کے قول پر فتویٰ دینا واجب ہے اگر چہ ہم نہ جانتے ہوںکہ امام صاحب نے وہ قول کہاں سے کیاہے‘‘ یہ بات امام اعظم ؒ کی اس بات کے خلاف ہے کہ ’’کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ ہمارے قول پر فتویٰ دے جب تک کہ وہ یہ نہ جان لے کہ ہم نے کس دلیل سے بات کہی ہے۔‘‘کیوں کہ امام صاحب کا یہ قول صاف اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ غیر مجتہد کے لیے فتویٰ دیناہی جائزنہیں۔ پھر اس قول سے اس بات پر کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ امام اعظم کے قول پر فتویٰ دیناواجب ہے؟
(اور اگر کوئی شبہ کرے کہ آج کل تو مجتہد مفتی کا وجود نہیں تو کیا اب فتویٰ دیناہی جائز نہیں؟ رملی اس کا جواب دیتے ہیں:)
’’تو میںکہتا ہوں کہ غیر مجتہد جو فتویٰ دیتاہے وہ در حقیقت فتویٰ ہی نہیں، وہ تو صرف مجتہد کی بات نقل کرتا ہے، اس نے یہ