عادت، یا قرائنِ احوال، اور یہ سب بدلے ہوئے احکام فقہِ حنفی سے خارج نہیں ہیں، کیوں کہ صاحبِ مذہب اگر اس زمانے میں ہوتے تو وہ بھی ضرور یہی کہتے، اور اگر حالات کا یہ تغیران کے زمانے میں رونما ہوچکا ہو تا تو وہ خود ان احکام کے خلاف تصریح نہ کرتے۔
اور یہی وہ بات ہے جس نے مجتہدین فی المذہب میں اور متاخرین میں سے صحیح نظر رکھنے والوں میں ، ظاہرِ روایت کی کتابوں میں صاحب مذہب کی طرف سے مصرح احکام کی مخالفت کی ہمت پیدا کی ہے، کیوں کہ صاحبِ مذہب نے ان احکام کا مدار اپنے زمانے کے احوال پر رکھا ہے، جیسا کہ کل حل علي حرام میں فقہا کی تصریح گزرچکی ہے کہ امام محمد ؒ نے جو کچھ فر مایا تھا اس کا مدار ان کے زما نے کے عرف پر تھا، اور فقہا کی ایسی ہی تصریح ہم تعلیمِ قرآن پر اجارہ کے جواز کے مسئلہ میں بیان کرچکے ہیں۔
سوال: پس اگر کوئی کہے کہ عرف تو باربار بدلتا ہے تو کیا اگر دوسرا عرف پیدا ہو جائے جو زمانہ سابق میں نہیں تھا تو مفتی کے لیے مصرح احکام کی مخالفت اور نئے احکام کی پیر وی جائز ہے؟
جواب: میں کہتاہوں کہ جائز ہے، کیوںکہ وہ متاخرین جنہوں نے مذکورہ بالا مسائل میں مصرح احکام کی مخالفت کی ہے، وہ امام صاحب کے زمانے کے بعد نیا عرف پیداہونے کی وجہ ہی سے کی ہے۔لہٰذا عرفی الفاظ میں مفتی نئے عرف کی پیروی کرے گا، اسی طرح ان احکام میں جن کا مدار مجتہد نے اپنے زمانے کے عرف پر رکھا ہے، اور وہ عرف بدل گیا ہے، اور نیا عرف پیداہوگیا ہے تو مفتی انھیں حضرات کی پیروی میں نئے عرف کا اعتبار کرے گا۔
مفتی کا بابصیرت واقفِ عرف ہونا ضروری ہے: لیکن یہ ضروری ہے کہ مقتی ذی رائے ہو، درست فکر رکھتا ہو، اور شریعت کے قواعد سے واقف ہو، تاکہ معتبر عرف جس پر احکام کا مدار رکھنا درست ہے، اور غیر معتبر عرف میں امتیاز کرسکے، کیوںکہ متقدمین نے مفتی کے لیے اجتہاد کو شرط قرار دیا ہے، اور یہ بات ہمارے زمانے میں مفقودہے، اس لیے کم از کم یہ شرط تو ہونی چاہیے کہ مفتی مسائل کو ان کی قیود وشروط کے ساتھ جانتا ہو، کیوں کہ فقہا بارہا شرائط وقیود چھوڑ دیتے ہیں، اور فقہ کے طالب علم کی سمجھ پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی تصریح نہیں کرتے۔
اسی طرح مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کا عرف جانتا ہو، اور اہلِ زمانہ کے احوال سے واقف ہو، اور اس