’’قاضی اور مفتی کے لیے امام صاحب کے قول سے عدول جائز نہیں۔ الا یہ کہ مشائخ میں سے کوئی صراحت کردے کہ فتویٰ امام صاحب کے علاوہ کے قول پر ہے۔ غرض قاضی کے لیے کسی ایسے مسئلے میں جس میں امام صاحب کے علاوہ کے قول کو ترجیح نہ دی گئی ہو، بلکہ مشائخ نے اس قول میں امام صاحب کی دلیل کو دوسروں کی دلیل پر تر جیح دی ہوجائز نہیں ہے کہ امام صاحب ؒ کے علاوہ کے قول پر فیصلہ کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا فیصلے نافذنہ ہو گا، ایسے فیصلہ کو توڑ دینے کے علاوہ کوئی صورت نہیں ہے۔ ‘‘
حتی یعلم من أین قلنا کا پہلا مطلب: پھر آپ جان لیں کہ امام اعظم کا جو ارشاد ہے کہ: لایحل لاحد أن یفتي بقولنا حتی یعلم من أین قلنا (کسی کے لیے بھی ہمارے قول پر فتویٰ دینا جائز نہیں، تاآںکہ وہ جان لے کہ ہم نے کہاں سے وہ قول نقل کیا ہے؟) اس ارشاد کے دومطلب ہوسکتے ہیں۔ پہلا مطلب وہ ہے جو عبارت کے ظاہری اور متبادر معنی ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ جب اس کے نزدیک کسی مسئلے میں اپنے امام کا مذہب ثابت ہو جائے۔ مثلاً امام اعظم ؒ کے نزدیک وتر کی نماز واجب ہے تو اس کے لیے اس حکم پر فتویٰ دینااس وقت جائز ہے جب وہ امام صاحب کے قول کی دلیل جان لے۔
مصداقِ خاص: اور بلاشک وار تیاب یہ ارشاد اس کی تفسیر کے مطابق مجتہد مفتی کے ساتھ خاص ہوگا، مقلد محض مفتی کے لیے یہ ارشاد نہیں ہے، کیوں کہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔ علما نے فرمایا ہے کہ اس تعریف کی رو سے امام کے قول کو دلیل جان کر لینا تقلید سے خارج ہوگیا، کیوں کہ وہ تقلید نہیں ہے، بلکہ دلیل سے مسئلہ اخذکر نا ہے، مجتہد سے مسئلہ اخذ کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھی کہاگیا ہے کہ امام کے قول کی دلیل جان کر اس کو لینا اجتہاد کا نتیجہ ہے، کیوں کہ دلیل کی معرفت مجتہد ہی کو ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ دلیل کا جاننا یہ جاننے پر موقوف ہے کہ یہ دلیل معارض دلیل سے محفوظ ہے، اور یہ بات تمام دلائل کا جائزہ لینے پر موقوف ہے، اور یہ کام مجتہد ہی کرسکتا ہے۔
اور صرف یہ جاننا کہ فلاں مجتہد نے فلاں حکم فلاں دلیل سے اخذ کیا ہے محض بے فائدہ ہے۔ اس لیے ’’مفتی کے لیے دلیل جاننا ضروری ہے‘‘ کا مطلب یہ لینا ہوگا کہ وہ اس دلیل کا حال بھی جانتاہو، تاکہ اس کے لیے اس مسئلے میں یقین کے ساتھ امام کی تقلید اور دوسروں کو اس پر فتویٰ دینا درست ہو، اور یہ بات مجتہد فی المذہب مفتی ہی کے لیے ممکن ہے اور وہی درحقیقت مفتی ہے، دوسرے لوگ تو ناقلِ فتاویٰ ہیں۔
پہلے مطلب پر اشکال: لیکن قولِ امام کامذکورہ بالا مطلب لینا بعید ہے، کیوں کہ یہ مجتہد فی المذہب مفتی جب اجتہاد مطلق کے درجے تک نہیں پہنچا ہے تو اس پر اس کی تقلید لازم ہے جو اجتہادِ مطلق کے درجے تک پہنچ چکا ہے، اور مقلد پر قولِ امام کی دلیل جاننا لازم نہیں، البتہ ایک رائے کے مطابق جومعتزلہ کی ہے اپنے امام کی دلیل کا جاننا ضروری ہے۔ علامہ