Deobandi Books

آپ فتوی کیسے دیں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

79 - 145
’’قاضی اور مفتی کے لیے امام صاحب کے قول سے عدول جائز نہیں۔ الا یہ کہ مشائخ میں سے کوئی صراحت کردے کہ فتویٰ امام صاحب کے علاوہ کے قول پر ہے۔ غرض قاضی کے لیے کسی ایسے مسئلے میں جس میں امام صاحب کے علاوہ کے قول کو ترجیح نہ دی گئی ہو، بلکہ مشائخ نے اس قول میں امام صاحب کی دلیل کو دوسروں کی دلیل پر تر جیح دی ہوجائز نہیں ہے کہ امام صاحب   ؒ کے علاوہ کے قول پر فیصلہ کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا فیصلے نافذنہ ہو گا، ایسے فیصلہ کو توڑ دینے کے علاوہ کوئی صورت نہیں ہے۔ ‘‘
حتی یعلم من أین قلنا کا پہلا مطلب: پھر آپ جان لیں کہ امام اعظم کا جو ارشاد ہے کہ: لایحل لاحد أن یفتي بقولنا حتی یعلم من أین قلنا (کسی کے لیے بھی ہمارے قول پر فتویٰ دینا جائز نہیں، تاآںکہ وہ جان لے کہ ہم نے کہاں سے وہ قول نقل کیا ہے؟) اس ارشاد کے دومطلب ہوسکتے ہیں۔ پہلا مطلب وہ ہے جو عبارت کے ظاہری اور متبادر معنی ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ جب اس کے نزدیک کسی مسئلے میں اپنے امام کا مذہب ثابت ہو جائے۔ مثلاً امام اعظم   ؒ کے نزدیک وتر کی نماز واجب ہے تو اس کے لیے اس حکم پر فتویٰ دینااس وقت جائز ہے جب وہ امام صاحب کے قول کی دلیل جان لے۔ 
مصداقِ خاص: اور بلاشک وار تیاب یہ ارشاد اس کی تفسیر کے مطابق مجتہد مفتی کے ساتھ خاص ہوگا، مقلد محض مفتی کے لیے یہ ارشاد نہیں ہے، کیوں کہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔ علما نے فرمایا ہے کہ اس تعریف کی رو سے امام کے قول کو دلیل جان کر لینا تقلید سے خارج ہوگیا، کیوں کہ وہ تقلید نہیں ہے، بلکہ دلیل سے مسئلہ اخذکر نا ہے، مجتہد سے مسئلہ اخذ کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھی کہاگیا ہے کہ امام کے قول کی دلیل جان کر اس کو لینا اجتہاد کا نتیجہ ہے، کیوں کہ دلیل کی معرفت مجتہد ہی کو ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ دلیل کا جاننا یہ جاننے پر موقوف ہے کہ یہ دلیل معارض دلیل سے محفوظ ہے، اور یہ بات تمام دلائل کا جائزہ لینے پر موقوف ہے، اور یہ کام مجتہد ہی کرسکتا ہے۔ 
اور صرف یہ جاننا کہ فلاں مجتہد نے فلاں حکم فلاں دلیل سے اخذ کیا ہے محض بے فائدہ ہے۔ اس لیے ’’مفتی کے لیے دلیل جاننا ضروری ہے‘‘ کا مطلب یہ لینا ہوگا کہ وہ اس دلیل کا حال بھی جانتاہو، تاکہ اس کے لیے اس مسئلے میں یقین کے ساتھ امام کی تقلید اور دوسروں کو اس پر فتویٰ دینا درست ہو، اور یہ بات مجتہد فی المذہب مفتی ہی کے لیے ممکن ہے اور وہی درحقیقت مفتی ہے، دوسرے لوگ تو ناقلِ فتاویٰ ہیں۔ 
پہلے مطلب پر اشکال: لیکن قولِ امام کامذکورہ بالا مطلب لینا بعید ہے، کیوں کہ یہ مجتہد فی المذہب مفتی جب اجتہاد مطلق کے درجے تک نہیں پہنچا ہے تو اس پر اس کی تقلید لازم ہے جو اجتہادِ مطلق کے درجے تک پہنچ چکا ہے، اور مقلد پر قولِ امام کی دلیل جاننا لازم نہیں، البتہ ایک رائے کے مطابق جومعتزلہ کی ہے اپنے امام کی دلیل کا جاننا ضروری ہے۔ علامہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مرجوح قول پر نہ فتویٰ دینا جائز ہے نہ عمل کرنا 21 1
3 یہ مسئلہ اجماعی ہے 21 2
4 طبقاتِ فقہا 23 1
5 فتویٰ دینے سے پہلے تحقیق ضروری ہے 26 4
6 ایک آدھ کتاب دیکھ کریاغیرواضح کتابوں سے فتویٰ دیناجائزنہیں 27 4
7 ضعیف کتابیں 27 4
8 حوالے کی تحقیق ضروری ہے اورحوالے میں غلطی کی مثالیں 28 4
9 طا عات پر اجارہ اور ایصالِ ثواب کے لیے اجرت پر قرآن خوانی کرانے کا عدمِ جواز 29 4
10 سببِ تسامح 33 4
11 حاشیہ شامی کی خوبی 33 4
12 متاخرین کی کتابوں میں بھی تسامحات ہیں 33 4
13 محض مطالعہ سے فتویٰ دینا جائز نہیں 34 4
14 فتویٰ دینے کے لیے کیا صلاحیتیں ضروری ہیں 34 4
15 نا اہل مفتی کی سزا 34 4
16 فتویٰ ظاہرِ روایت پر دینا چاہیے 34 4
17 ظاہر الروایہ کی ترکیب 35 4
18 اصول کے معنی 36 4
19 جامعِ صغیر کا تعارف 36 4
20 جامعِ کبیرکا تعارف 37 4
21 صغیر وکبیر میں فرق 37 4
22 سیرِ صغیر وکبیر کا تعارف 38 4
23 زیادات اور زیادات الزیادات کاتعارف 38 4
24 کتاب الاصل (مبسوط) کا تعارف 39 4
25 کتبِ نوادر کا تعارف 40 4
26 کتبِ نوازل کا تعارف 40 4
27 اصحاب اور مشائخ میں فرق 41 4
28 متقدمین اور متاخرین کی تحدید 41 4
29 سلف اور خلف سے مراد 41 4
30 طبقات المسائل 41 4
31 مبسوط کے نسخے اور شروح 43 4
32 روایت الا صول اور ظاہر الروایہ میں کوئی فرق نہیں 44 1
33 علامہ ابنِ کمال پاشا پررد 44 32
34 سِیَرْ کے معنی 45 32
35 اصول اور غیر اصول کی روایتیں 47 32
36 جامعِ صغیر کی وجہ تصنیف 48 32
37 جامعِ صغیر کا تعارف 48 32
38 صغیر وکبیر میں فرق 48 32
39 متفق علیہ مسائل 49 32
40 سیرِ کبیر کی وجہ تصنیف 49 32
41 حاکم شہید ؒ کی کافی 51 32
42 مبسوط سرخسی کا مرتبہ 51 32
43 فقہ حنفی کی مبسوطیں 52 32
44 حاکم شہید اور کافی 52 32
45 متعدد شمس الائمہ 53 32
46 القاب میں مبالغہ 53 32
47 مجتہد کے مختلف اقوال اور ضابطہ ترجیح 55 32
48 اختلافِ اقوال اور اختلافِ روایات میں فرق 56 32
49 اختلافِ روایات کے چار اسباب 57 32
50 اقوال وروایات میں فرق پراعتراض 57 32
51 اختلافِ روایت کے دو اور سبب 58 32
52 راجح قول ہے اور مرجوح روایت 58 32
53 عدمِ تر جیح کی صورت میں دونوں ہی قول ہیں 58 32
54 رجوع کے بعد قول باقی نہیں رہتا 59 32
55 رجوع سے اختلاف ختم نہیں ہوتا 59 32
56 کیاتعاضِ ادلہ اختلافِ اقوال کاسبب ہو سکتاہے 59 32
57 علامہ شامی ؒ کی رائے 60 32
58 تلامذہ کے اقوال بھی امام صاحب کے اقوال ہیں 61 32
59 صحیح حدیثیں بھی امام صاحب کے اقوال ہیں 62 32
60 حدیث پر عمل کے لیے اہلیت شرط ہے 63 32
61 مذہب کے دائرے میں رہنا ضروری ہے 63 32
62 وہ مسائل جوتو سعاً مذہب میں شامل ہیں 64 32
63 مستزاد مسائل کے لیے مناسب تعبیر 65 32
64 اقوالِ تلامذہ اقوالِ امام ہونے کی دلیل 65 32
65 تخریجی مسائل اقوالِ تلامذہ کی بہ نسبت مذہب سے قریب تر ہیں 66 32
66 مختلف فیہ مسائل میں کس کے قول پر فتویٰ دیا جائے 68 32
67 تائیدات 69 32
68 صورتِ دوم کی مزید تفصیل 71 32
69 صورتِ دوم کے حکم پر اعتراض 71 32
70 تائیدی حوالے 71 32
71 مجتہد سے مراد 73 32
72 مفتیانِ زمانہ کا حکم 74 32
73 کیا فتویٰ دینے کے لیے مفتی بہ قول کی دلیل معلوم ہونا ضروری ہے 76 32
74 غیرمجتہد مفتی صرف ناقلِ فتاویٰ ہوتاہے 77 1
75 رملی کا ابنِ نجیم پر رد 77 74
76 مشائخ امام اعظم کے دلائل سے بخوبی واقف تھے 78 1
77 رملی کے ردکی وضاحت اور مزید رد 78 76
78 حتی یعلم من أین قلنا کا پہلا مطلب 79 76
79 مصداقِ خاص 79 76
80 قولِ امام کا دوسرا مطلب 81 76
81 مجتہد فی المذہب کون ہے 83 76
82 امام ابن الہمام ؒ کامرتبہ 84 76
83 علامہ قاسم کا مقام 84 76
84 ابنِ نجیم کا مقام 85 76
85 متقدمین سے روایت نہ ہو اور متاخرین میں اختلاف ہوتو کیا کیا جائے 87 76
86 متاخرین کا بھی کوئی قول نہ ہو تو کیا کیا جائے 87 76
87 فتویٰ میں صریح حوالہ ضروری ہے 88 76
88 صریح جزئیہ نہ ملنے کی وجہ 89 76
89 نظیر سے فتویٰ نہ دیا جائے 89 76
90 قواعدِ کلیہ سے بھی فتویٰ دینا جائز نہیں 89 76
91 نظیرسے فتویٰ دینا کہاں جائز ہے 89 76
92 عبادات میں امام اعظم کا قول مفتی بہ ہے 94 76
93 امام اعظم کے کیا کہنے 94 76
94 قضا کے مسائل میں امام ابویوسف کا قول مفتی بہ ہے 94 76
95 مسائل ذوی الارحام میں امام محمد کاقول مفتی بہ ہے 95 76
96 استحسان کوقیاس پر ترجیح حاصل ہے 95 76
97 ظاہرِ روایت پر فتویٰ دینا ضروری ہے 96 76
98 اختلافِ روایات کے وقت درایت(دلیل) کا لحاظ 96 76
99 کفر کے فتویٰ میں احتیاط لازم ہے 96 76
100 مرجوع عنہ قول منسوخ قول ہے 97 76
101 کسی قول کامتون میں ہونا اس کی ضمنی تصحیح ہے 97 76
102 متون، شروح اور فتاویٰ کی درجہ بندی 98 76
103 فتاویٰ قاضی خان اور ملتقی الابحر کا طریقہ 100 76
104 ہدایہ،بدائع، شروحِ ہدایہ وشروحِ کنز کا طریقہ 100 76
105 درمیانی قول راجح نہیں ہوتا 101 76
106 جوقول مدلل کیا گیا ہو وہی راجح ہے 101 76
107 تصحیحِ مسائل کی اصطلاحات اور ان کے مراتب 103 76
108 صحیح اور أصح میں زیادہ مؤکد کون ہے 103 76
109 خلاصۃ المرام 104 76
110 تصحیح کو ترجیح دینے کی دس صورتیں 108 76
112 مفہوم اور اس کی اقسام 111 1
113 مفہومِ موافق 111 112
114 مفہوم مخالف 112 112
115 مفہوم صفت 112 112
116 مفہومِ شرط 112 112
117 مفہومِ غایت 112 112
118 مفہوم عدد 112 112
119 مفہوم لقب 112 112
120 مفہوم کا حکم 112 112
121 بول چال، معاملات اور عقلیات میں مفہومِ مخالف معتبر ہے 113 112
122 عبارات فقہیہ اور اقوالِ صحابہ میں مفہومِ مخالف معتبر ہے 113 112
123 باہمی گفتگو میں مفہومِ مخالف معتبر ہونے پر اعتراض 114 112
124 نصوصِ شرعیہ میں مفہومِ مخالف اور امام محمد ؒ 115 112
125 مفہومِ مخالف اس وقت حجت ہے جب وہ صراحت کے خلاف نہ ہو 118 112
126 عرف کی تعریف 118 112
127 عادت کی تعریف 118 112
128 عرف و عادت کا اعتبار 118 112
129 اعتبار عرفِ عام اور عادتِ غالبہ کا ہے 119 112
130 عرف سے ثابت حکم کا درجہ 119 112
131 عرف بدلنے سے احکام بدلتے ہیں 119 112
132 مفتی کا بابصیرت واقفِ عرف ہونا ضروری ہے 122 112
133 فتویٰ میں مصلحت کا لحاظ ضروری ہے 123 112
134 مفتی کے لیے لوگوں کے احوال کا جاننا ضروری ہے 123 112
135 عرف خلافِ شرع نہ ہوتو فتویٰ میں اس کالحاظ ضروری ہے 124 112
136 عرفِ عام، عرفِ خاص اور ان کے احکام 125 112
137 عرف کی بحث تشنہ ہے 127 112
138 ضعیف قول پر عمل اور فتویٰ 130 112
139 شرنبلالی پر اعتراض 130 112
140 علامہ سبکی پر اعتراض 130 112
141 بوقتِ ضرورت احناف کے نزدیک بھی ضعیف قول پر عمل جائز ہے 131 112
142 ملحق بالضرورۃ 132 112
143 بیری کی بات اور اس کی تاویل 132 112
144 ضعیف قول پر یا مذہبِ غیر پر فیصلہ جائز نہیں 134 112
145 خاتمہ 137 1
Flag Counter