میں غلطی ہوسکتی ہے، اور مولی برکلی 1 نے قدوری کی شرح السراج الوہاج 2 کو بھی ضعیف اور غیر معتبر کتابوں میں شمار کیا ہے۔
(کشف الظنون ج: ۲ ص: ۱۶۳۱)
حوالے کی تحقیق ضروری ہے اورحوالے میں غلطی کی مثالیں: میں (علامہ شامی) کہتا ہوں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ متاخرین کی کتابوں میں بیس کتابوں تک ایک بات نقل ہوتی چلی جاتی ہے، حالاں کہ اس مسئلے کو پہلے بیان کرنے والے شخص سے غلطی ہوئی ہوتی ہے، مگر بعد کے لوگ اس پر اعتمادکر کے نقل کرتے رہتے ہیں۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
پہلی مثال: کنزا لدقائق: کتاب البیوع، باب المتفرقات میں جہاں یہ بحث آئی ہے کہ کن چیزوں کو شرط پر معلق کرنا درست ہے، اور کن چیزوں کی تعلیق درست نہیں، علامہ ابنِ نجیم نے اسی قسم کی ایک غلطی پرتنبیہ کرتے ہوئے تحریر فر ما یا ہے کہ:
وقد یقع کثیرا أن مؤلفا یذکرشیئا خطا في کتابہ، فیاتي من بعدہ من المشایخ، فینقلون تلک العبارۃ من غیرتغییر ولا تنبیہ، فیکثر الناقلون لھا، وأصلھا الواحد مخطئی، کما وقع في ہٰذا الموضع
(البحرالرائق: ج۶/۱۸۵)
’’بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک مصنف غلطی سے کوئی بات اپنی کتاب میںذکر کر تا ہے، پھر بعد کے علما اس عبارت کو بعینہ نقل کرتے ہیں، نہ اس کی اصلاح کرتے ہیں، نہ غلطی پر تنبیہ کرتے ہیں، پھر دوسرے بہت سے حضرات اس کونقل کرتے ہیں، حالاں کہ پہلے لکھنے والے سے غلطی سرزد ہوئی ہوتی ہے، جیساکہ زیرِ بحث مسئلے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ ‘‘
دوسری مثال: محض تلاوتِ قرآن کے لیے کسی کو اجرت پر لینا درست ہے یا نہیں؟ قدوری کی شرح السراج الوہاج اور