شخص کبھی کسی ضرورت کے تقاضے سے ضعیف قول پر عمل کرے تو وہ ممنوع نہیں ہے۔
بوقتِ ضرورت احناف کے نزدیک بھی ضعیف قول پر عمل جائز ہے: اور اسی پر اس قول کو محمول کیا جائے گا جو پہلے شرنبلالی کی حوالے سے گزر چکا ہے کہ حنفیہ کا مذہب عدمِ جواز کا ہے (یعنی یہ عدم جواز تشھی کی صورت میں ہے، ضرورت کے وقت جائز ہے ) اس دلیل سے فقہا نے مسافر کو اور اس مہمان کو جوشبہ سے ڈر تا ہے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ امام ابویوسف ؒ کے قول پر عمل کرے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص خواب دیکھے، اور جب اسے بد خوابی کا احساس ہو تو عضو کو مضبوط پکڑ لے، اور جب شہوت سست پڑ جائے تو چھوڑ دے تو اس پر غسل واجب نہیں ہوگا، کیوںکہ ان کے نزدیک غسل واجب ہونے کے لیے منی کا شہوت کے ساتھ عضو سے نکلنا شرط ہے۔ حالاں کہ امام ابویوسف ؒ کا یہ قول فقہِ حنفی میں راجح قول کے خلاف ہے، مگر علما نے بوقتِ ضرورت اس پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے۔
اور اسی قبیل سے وہ مسئلہ بھی ہونا چاہیے جوصاحبِ ہدایہ نے اپنی کتاب مختارات النوازل میں ذکر فرمایا ہے، یہ ایک مشہور کتاب ہے جس سے ہدایہ کے شارحین وغیرہ مسائل نقل کرتے ہیں، آپ نے فصل النجاسۃ میں لکھا ہے کہ:
’’جب خون تھوڑا تھوڑا زخم سے نکلے جو بہنے والا نہ ہو ،تو وہ ناقضِ وضو نہیں، چاہے اس کی مجموعی مقدار بہت ہو، اور ایک ضعیف قول یہ ہے کہ اگر وہ خون اتنا ہو کہ اگر اس کو چھوڑ دیا جائے تو وہ ضرور بہے تو وہ نا قض ہے۔‘‘
پھر صاحبِ ہدایہ نے یہ مسئلہ نواقضِ وضو میں دوبارہ بیان کیا ہے، چنا ں چہ وہ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر زخم سے تھوڑی چیز نکلے، اور اس کو کسی کپڑے سے پونچھ لے، اور مجموعی مقدار اتنی ہو کہ اگر وہ چیز چھوڑدی جاتی تو بہہ جاتی تو وضو نہیں ٹوٹے گا، اور ایک ضعیف قول یہ ہے کہ‘‘
اور میں نے کتاب کا ایک اور نسخہ بھی دیکھا اس میں بھی عبارت بعینہ اسی طرح ہے، اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ مذہب کی عام کتابوں میں مشہور قول دوسراہی ہے جس کو قیل سے بیان کیا گیا ہے، اور وہ پہلا قول جس کو صاحبِ ہدایہ نے پسند کیا ہے، میری معلومات کی حد تک کسی نے ان سے پہلے اس کو اختیار نہیں کیا، اور نہ ان کے بعد کسی نے ان کی ہم نوائی کی ہے ۔
یہ بات میں بہت سی کتابوں کی مراجعت کے بعد کہہ رہا ہوں ،لہٰذا وہ قول شاذہے۔مگر صاحب ہدایہ فقہ حنفی کے اکابرین میں سے جلیل القدر امام ہیں، اور اصحابِ تخریج و تصحیح کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جیساکہ پہلے گزر چکا ہے۔ پس معذور شخص کے لیے ضرورت کی وقت اس قول میں صاحبِ ہدایہ کی تقلید جائز ہے، کیوں کہ اس قول میں معذوروں کے لیے بڑی گنجائش ہے، جس کی تفصیل میں نے الأحکام المخصصۃ بکي الحمصۃ نامی رسالے 1 میں کی ہے۔