سے کسی ایک احتمال کو ترجیح حاصل نہ ہونا (خوب غور کر لیں)۔
نیز یہ بات بھی مخفی نہیں ہے کہ اختلافِ روایات کی یہ وجہ جو ہم نے بیان کی ہے گزشتہ وجوہِ اربعہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر کارآمد ہوسکتی ہے، کیوں کہ وہ اس صورت کو بھی شامل ہے جس میں اختلاف قیاس واستحسان کی وجہ سے ہو، یا فتویٰ اور تقویٰ کی جہت سے ہو۔
اضافہ: خلاصہ یہ کہ اختلافِ اقوال و روایات کے چھ اسباب ہیں، جو درج ذیل ہیں:
۱۔ راویوںسے امام کی بات سننے میں یا سمجھنے میں غلطی کاہونا۔
۲۔ امام کا اپنے قول سے رجوع کر لینا، مگر بعض راویوں کو اس کی اطلاع نہ ہونا۔
۳۔ قیاس و استحسان کے تعلق سے مسئلے میں امام کے دو قول ہونا۔
۴۔ فتویٰ اور تقویٰ کے تعلق سے مسئلے میں امام کے دو قول ہونا۔
۵۔ دلائل میں تعارض کی وجہ سے امام کا حکم میں متردد ہونا اور دوقول کرنا۔
۶۔ کسی دلیل کے مفہوم میں احتمال ہونے کی وجہ سے امام کا دو قول کرنا۔
نوٹ: اول ودوم اختلافِ روایت کے اسباب ہیں اور باقی اختلاف اقوال کے۔
تلامذہ کے اقوال بھی امام صاحب کے اقوال ہیں: جب مذکورہ بات ثابت ہوگئی تواب جاننا چاہیے کہ امام ابوحنیفہ نے غایتِ احتیاط اور کمالِ تقویٰ کی وجہ سے اور یہ بات جاننے کی وجہ سے کہ اختلاف آثارِ رحمتسے ہے 1 ، اپنے تلامذہ سے کہہ دیاتھا کہ ’’اگر تمہیں کوئی دلیل مل جائے تو اس کے مطابق رائے قائم کر سکتے ہو۔ ‘‘چناںچہ ہر شاگرد امام صاحب سے مروی کسی روایت کولے لیتا اور اس کو ترجیح دیتا تھا۔ علامہ حصکفی ؒ نے درِ مختار (۱/۵۰) میں یہ بات نقل کی ہے 2 ۔
اور فتاویٰ والوالجیہ 3 کی کتاب الجنایات میں ہے کہ امام ابویوسف ؒ نے فرمایا کہ ’’میں نے امام اعظم ؒ کی رائے کے خلاف جو بھی قول کیا ہے۔ وہ خودان کا سابقہ قول ہے ‘‘اور امام زفر ؒ سے مروی ہے کہ: ’’میں نے جس مسئلے میں بھی امام ابوحنیفہ ؒ کی مخالفت کی ہے، اور علیحدہ رائے قائم کی ہے، وہ خود ان کا قول ہے، جس سے انھوں نے رجوع کرلیا ہے۔، یہ اقوال مشیر ہیں کہ امام اعظم ؒ کے تلامذہ نے اختلاف کاراستہ اختیار نہیں کیا، بلکہ انھوں نے رائے اور اجتہاد سے جو کچھ کہاہے وہ اپنے استاذ امام ابوحنیفہ ؒ کے ارشاد کی تعمیل ہے۔