حضرات کے دلائل کے جوابات پر بھی مشتمل ہوتی ہے ۔ مصنفین کا یہ انداز بذاتِ خود امام صاحب کے قول کی تر جیح ہے، إلا یہ کہ وہ حضرات کسی اور کے قول کے راجح ہونے کی تصریح کریں۔
شیخ الاسلام علامہ ابن الشلبی ؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ:
’’اصل یہ ہے کہ عمل امام ابوحنیفہ ؒ کے قول پر ہے ۔ اسی وجہ سے مشایخ عام طورپر امام صاحب کی دلیل کو ان کے تلامذہ میں سے ان کی مخالفت کرنے والوں کی دلیل پر ترجیح دیتے ہیں، اور ان کے مخالف نے جس دلیل سے استدلال کیا ہے اس کا جواب دیتے ہیں، اور یہ بات امام صاحب کے قول پر عمل ہونے کی علامت ہے، اگر چہ علما نے اس کی تصریح نہ کی ہو کہ فتویٰ امام صاحب کے قول پر ہے کیوں کہ ترجیح خود صراحتاً تصحیح کی طرح ہے‘‘۔
درمیانی قول راجح نہیں ہوتا: اور امام نسفی ؒ کی المستصفی کے آخر میں ہے کہ:
’’جب کسی مسئلے میں تین قول ذکر کیے گئے ہوں تو راجح قول یا تو پہلا ہے یا آخری، درمیانی قول راجح نہیں ہے۔ ‘‘
میں (علامہ شامی) کہتاہوں کہ اس میں ایک قید کا اضافہ مناسب ہے۔ وہ یہ کہ یہ بات اس صورت میں ہے جب اس کی کتاب کے مصنف کی عادت معلوم نہ ہو، اور دلائل بھی ذکر نہ کیے گئے ہوں۔ عادت معلوم ہونے کی صورت میں جیساکہ خانیہ اور ملتقی کے بارے میں گزرچکا عادت کی پیروی کی جائے گی۔ اسی طرح جب دلائل ذکر کیے گئے ہوں تو آخری قول کو تر جیح ہوگی، جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔
جوقول مدلل کیا گیا ہو وہی راجح ہے: اسی طرح اگر علما کسی مسئلے میں دوقول ذکر کریں، اور دو کا ذکر بطورِ مثال ہے، اور ان میں سے ایک قول کی دلیل بیان کریں تویہ اس قول کو ترجیح دینا ہے اس دوسرے قول پر جس کی دلیل نہیں بیان کی گئی۔ یہ فائدہ علامہ خیر الدین رملی ؒ نے فتاویٰ خیریہ کی کتاب الغصب (۲/۱۵۰) میں بیان کیا ہے، اور اس سے ملتی جلتی بات وہ ہے جو التحریر اور اس کی شرح التقریر فصل الترجیح في المتعارضین ۳/۲۶ میں بیان کی ہے کہ:
’’وہ حکم جس کی علت سے تعرض کیاگیا ہو اس حکم سے راجح ہے جس کی علت سے تعرض نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ علت کا ذکر اس حکم کی اہمیت اور اس کی ترغیب پر دلالت کرتا ہے‘‘۔
۵۷