میں نے ان اشعار میں (نو) ایسے قواعد جمع کیے ہیں جن کو علما نے اپنی کتابوں میں متفرق طور پر ذکر کیا ہے، اور ان قواعد کو علما نے راجح اقوال کی علامت مقرر کیاہے۔
عبادات میں امام اعظم کا قول مفتی بہ ہے: پہلا قاعدہ وہ ہے جس کو بر ہان الدین علامہ ابراہیم حلبی ؒ نے منیۃ المصلي کی شرح غنیۃ المتملي 1 معروف بہ کبیری (ص: ۶۶) میں فصل التیمم میں بیان کیا ہے۔ وہ فر ماتے ہیں کہ:
’’امام اعظم کے کیا کہنے! کس قدر ان کی نظر باریک تھی! اور کس قدر ان کی فکر درست تھی! اور کوئی تو وجہ تھی کہ علما نے عبادات میں مطلقاً امام اعظم ؒ کے قول پر فتویٰ دینا تجویز کیا ہے! اور جائزہ لینے سے صورتِ حال بھی یہی سامنے آتی ہے۔ (کہ ہر جگہ آپ ہی کے اقوال پر فتویٰ ہوتا ہے ) جب تک امام صاحب سے آپ کے مخالف کے قول کے موافق کوئی روایت مروی نہ ہو، جیسے مائِ مستعمل کی طہارت میں 1 اور نبیذِ تمر کے سواپانی نہ ہونے کہ صورت میں صرف تیمم کر نے میں 2 ۔‘‘ (یعنی عبادات میں اگر امام اعظم کے علاوہ کسی اور کے قول پر فتویٰ ہوتا ہے تو ان کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف دوسرے امام کا قول نہیں ہوتا، بلکہ وہ امام صاحب کی ایک روایت بھی ہوتی ہے، اس لیے وہ فتویٰ بھی امام صاحب ہی کے قول پر سمجھا جائے گا)
۲۔ قضا کے مسائل میں امام ابویوسف کا قول مفتی بہ ہے: دوسراقاعدہ وہ ہے جو البحرالرائق (۲/۲۸۲)میں فصل الحبس سے ذراپہلے مذکور ہے، صاحبِ بحر فرماتے ہیں:
’’اور قنیہ کے باب المفتی میں ہے کہ جن امور کا تعلق قضاسے ہے ان میں فتویٰ امام ابویوسف کے قول پر ہے، کیوں کہ ان کو قضا کے سلسلے میں تجربات زیادہ تھے، فتاویٰ بزازیہ کی کتاب القضا میں بھی ایسا ہی ہے۔
یعنی امام ابویوسف ؒ کو قضا کا تجربہ ہونے کی وجہ سے زیادہ علم حاصل ہوا تھا اور اسی زیادتی علم (اور تجربہ) کی وجہ سے امام ابوحنیفہ ؒ نے اپنے اس قول سے کہ ’’صدقہ نفلی حج سے افضل ہے‘‘ اس وقت رجوع فرمالیا جب آپ نے خود حج کیا، اور حج کی مشقتیں علم میں آئیں۔