کَمَا عَلَیْہِ أَقْسَمَ الْأَصْحَابْ
پس فقہ حنفی میں امام اعظم ؒ کے علاوہ کسی کا کوئی قول نہیں جیساکہ یہ بات قسم کھا کر کہی ہے امام صاحب کے تلامذہ نے۔
تشریح: غدٰی (فعلِ ناقص) بمعنی صار، منیفۃ (اسمِ فاعل) أناف علی الشيء: بلند ہونا، نمایاں ہونا۔ غدٰی اسم وخبر سے مل کر روایات کی صفت ہے۔ اختار اختیارًا: منتخب کرنا، چن لینا۔ رفاق، رفقۃ کی جمع ہے بمعنی ساتھیوں کی جماعت۔
مجتہد کے مختلف اقوال اور ضابطہ ترجیح: یہ بات جان لیں کہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں اکثر علما سے جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ ایک مسئلے میں مجتہد کے دوقول بر بنائے تعارض نہیں ہو سکتے۔ پھر اگر دوقولوں میں سے آخری قول معلوم ہے تو اس کو رجوع قرار دینا متعین ہوگا، ورنہ بعد کے مجتہد پر بشہادتِ قلب ایک قول کو ترجیح دینا واجب ہوگا، جیساکہ احناف کی بعض مشہور کتابوں میں ہے۔ اور بعض میں ہے کہ اگر اقوال کی تاریخ معلوم نہ ہوتو اگر دو قولوں سے ایک کے ساتھ کوئی ایسی بات امام سے منقول ہے جو اس کو قوی کرتی ہو تو وہی قول امام کے نزدیک صحیح ہے۔ ورنہ اگر کوئی ایسا مقلد موجود ہے جو اجتہاد فی المذہب کے درجے کو پہنچا ہواہے تو وہ گزشتہ ترجیحات کے ذریعے ترجیح دے گا، اگر کوئی مرجح موجودہو، ورنہ دل کی گواہی سے جس قول پر چاہے عمل کرے، اور اگٰر کوئی عام آدمی ہے تو وہ علم میں برتر اور تقویٰ میں بہتر مفتی کے فتویٰ کی پیروی کرے، اور اگر فقہ کا طالبِ علم ہے تو وہ متاخرین کی پیروی کرے، اور اس قول پر عمل کرے جو اس کے نزدیک زیادہ درست اور زیادہ مبنی بر احتیاط ہے۔ محقق ابنِ ہمام کی تحریر میں ایسا ہی ہے۔
وضاحت: علامہ شامی ؒ نے مذکورہ بالا پورامضمون علامہ ابن الہمام ؒ کی مشہور کتاب التحریر سے اور اس کے شارح علامہ ابن امیر حاج حلبی ؒ کی التقریر والتحبیر (۳/۳۳۳) سے نقل کیاہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ کسی مجتہد کے بیک وقت کسی مسئلے میں دو یازیادہ متعارض اقوال نہیں ہوسکتے، عقلا کے کلام میں تعارض پسندیدہ بات نہیں ہے، پس اگر کسی مسئلے میں مجتہد کے مختلف اقوال مروی ہوں تو ان پر ترجیح ضروری ہے، 1 تاکہ تعارض رفع ہوجائے، اور وہ وجوہِ ترجیح درج ذیل ہیں۔
۱۔ اگر مختلف اقوال میں سے کسی قول کے با رے میں معلوم ہو جائے کہ وہ امام کابعد کا قول ہے تو وہی مر جوع الیہ قول