پر فتویٰ دیا جائے گا، کیوںکہ ان کو واقعات کا تجربہ تھا، اور وہ لوگوں کے حالات جانتے تھے۔
اور بحر میں امام محمد کردری ؒ کی مناقب الإمام الأعظم سے نقل کیا ہے کہ امام محمد ؒ رنگ ریزوں کے پاس جایا کرتے تھے، اور ان کے معاملات کے بارے میں اور ان کے آپس کے کاروبار کے بارے میں ان سے معلومات حاصل کرلیا کرتے تھے إلخ۔
اور علما نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ:
’’اگر زمین والا اپنی زمین میں عمدہ چیز کی کاشت کی قدرت کے باوجود معمولی چیز بوئے تو اس کے ذمے اعلیٰ کا شت کا محصول واجب ہوگا۔‘‘
علما نے فرمایا کہ یہ مسئلہ صرف جاننا چاہیے، اس پر فتویٰ نہیں دینا چاہیے، تاکہ ظالم حکام لوگوں کے اموال لینے میں بے باک نہ ہو جائیں۔عنایہ شرحِ ہدایہ (۵/۲۸۵) علی ہامش الفتح میں فرمایاکہ اس بات کی یہ کہہ کر تردید کی گئی ہے کہ مسئلہ چھپانا کیسے جائز ہے؟ اور اگر حکام زائد محصول لیتے ہیں تو وہ لینے میں حق بجانب ہیں، کیوںکہ وہ واجب ہے۔ اس تردید کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ:
’’اگر ہم یہ فتویٰ دیں گے تو ہرظالم ایسی زمین کے بارے میں جو اعلیٰ درجے کی نہیں ہے یہ دعویٰ کرے گا کہ اس میں پہلے مثال کے طورپر زعفران کی کاشت ہوتی تھی، اور وہ اس کا محصول مانگے گا، اور یہ ظلم وزیادتی ہے إلخ۔‘‘
اور فتح القدیر (۵/۲۸۵)میں بھی ایسا ہی فرمایا ہے۔ ابن الہمام لکھتے ہیں کہ:
’’علما نے فر مایا ہے کہ اس مسئلے پر فتویٰ نہ دیا جائے، کیوں کہ یہ فتویٰ دینے کی صورت میں ظالم حکام مسلمانوں کے اموال پرمسلط ہوجائیں گے۔ ہرظالم دعویٰ کرے گا کہ یہ زمین زعفران اور اس جیسی چیزوں کی کاشت کے قابل ہے، اور اس کا علاج دشوار ہوگا إلخ‘‘۔
الغرض آپ کے لیے یہ بات واضح ہوگئی کہ مفتی یاقاضی کا منقول روایت کے ظاہر پر جما رہنا اور عرف اور واضح قرائن کوچھوڑ دینا اور لوگوں کے احوال سے نا واقف رہنا بہت سے حقوق ضائع کرنے اور بہت بڑی مخلوق پرظلم کرنے کے مترادف ہے۔
عرفِ عام، عرفِ خاص اور ان کے احکام: پھر جانیں کہ عرف کی دوقسمیں ہیں۔ عرفِ عام اور عرفِ خاص۔ عرف عام سے عام حکم ثابت ہوتا ہے، اور وہ قیاس اور حدیث کے لیے مخصص بن سکتا ہے، اور عرفِ خاص کا معاملہ اس سے مختلف ہے، کیوں کہ اس سے حکمِ خاص ثابت ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ قیاس یا حدیث کے خلاف نہ ہو۔ کیوںکہ عرف خاص