اور ذخیرہ کی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ جس صورت میں عرفِ عام کا اعتبار کرنے سے منصوص کر چھوڑ نا لازم آتا ہو، اس کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔ عرفِ عام کا اعتبار صرف اس صورت میں کیا جائے گا کہ اس کا اعتبار کرنے سے نص میں تخصیص لازمی آتی ہو۔ اور عرفِ خاص کا دونوں صورتوں میں اعتبار نہیں کیا جائے گا، وہ صرف عرف والوں کے حق میں معتبر ہوگا بشرطیکہ اس کا اعتبار کر نے سے نہ تو نص کا چھوڑ نا لازم آئے اور نہ اس میں تخصیص کر نی پڑے۔
عرفِ خاص ظاہرِ روایت کے خلاف ہو (پھر بھی اس کا اعتبار کیا جائے گا)، اور عرفِ خاص کا معتبر ہونا، جیسے قسموں کے بارے میں متعارف الفاظ میں، اور عقود یعنی بیع واجارہ وغیرہ معاملات میں رائج عرف و عادت میں، چناں چہ وہ الفاظ و معاملات ہر علاقے میں اس علاقے کے عرف کے مطابق جاری ہوںگے، اور ان سے وہی بات مرادلی جائے گی جولوگوں کے درمیان متعارف ہے، اور وہی صحت و فساد اور جواز و عدمِ جواز مراد لیا جائے گا جو ان لوگوں کے عرف کا مقتضی ہے، اگر چہ فقہا نے صراحت کی ہو کہ الفاظ وعقود کا مقتضی لوگوں کے عرف کے خلاف ہے۔ کیوں کہ بولنے والا اپنے عرف و عادت کے مطابق ہی بولتا ہے، اور اپنے کلام سے اسی کا ارادہ کرتا ہے۔ وہ ان معانی کا اعتبار نہیں کرتا جوفقہا مراد لیتے ہیں، اور ہرشخص سے برتائو اس کی مراد کے مطابق کیا جاتا ہے، اور تمام عرفی الفاظ کے اصطلاحی مفاہیم ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے اصلی معانی مجازِ لغوی کی طرح ہو جاتے ہیں۔ جامع الفصولین میں کہا ہے کہ: ’’وہ کلام جولوگوں میں آپس میں بولا جاتا ہے وہ متعارف معنی کی طرف پھیرا جاتا ہے۔‘‘
اور علامہ قاسم ؒ کے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ :
’’تحقیقی بات یہ ہے کہ وقف کر نے والے، وصیت کرنے والے، قسم کھانے والے، منت ماننے والے اور عقد کرنے والے کے الفاظ اس کی گفتگو میں اور اس کی زبان میںجسے وہ بولتا ہے اس کے عرف پر محمول کیے جائیں گے۔ عرب اور شارع کی لغت کے مواقف ہوں یا نہ ہوں۔ ‘‘
عرف کی بحث تشنہ ہے: اخیر میں یہ عرض ہے کہ میں نے کوئی شخص نہیں دیکھا جس نے اس مسئلے میں ایسی مفصل گفتگو کی ہو جوبیمار کو شفا بخشے، مگر اس مسئلے کی وضاحت مزید تفصیل کی محتاج ہے، کیوںکہ مسئلہ طویل الذیل ہے، جزئیات اور اصول کے تذکرے کا محتاج ہے، اور ان سوالوں کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو کسی کی طرف سے اٹھائے جاسکتے ہیں، نیز ان مسائل کی وضاحت بھی ضروری ہے جن کاعرف پر مدار ہے، مگر یہاں میں نے اسی قدر پر اکتفا کی ہے، پھر بعض وہ باتیں جومیرے دل میں تھیں ان کو ایک مستقل رسالے میں ظاہر کیا ہے، جو اسی شعر کی شرح کے طور پر لکھا گیا ہے، اور اس میں کچھ وہ باتیں بھی ہیں جن کو بڑی مشقت سے میں نے نکالا ہے، اور میں نے اس رسالے کا نام نشر العرف (خوشبو