فرمایا ہے (اور محض نقل کے لیے دلیل کا جاننا ضروری نہیں)اور اس اعتبار سے امام صاحب کے علاوہ دوسرے کا قول نقل کرنا بھی جائز ہے۔ پھر ہمارے ذمے امام صاحب کے قول پر فتویٰ دیناگوکہ مشایخ نے آپ کے قول کے خلاف فتویٰ دیاہو کیسے واجب ہوگیا؟ جب کہ ہم ان مشائخ کے فتاویٰ کے صرف ناقل ہیں (رملی کی عبارت پوری ہوئی)
مشائخ امام اعظم کے دلائل سے بخوبی واقف تھے:
رملی کے ردکی وضاحت اور مزید رد: اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ مشائخ امام صاحب کے دلائل سے واقف تھے، اور وہ جانتے تھے کہ امام صاحب نے کہاں سے قول لیا ہے۔ نیز وہ امام صاحب کے تلامذہ کے اقوال کے دلائل سے بھی واقف تھے، پھر وہ تلامذہ کی دلیلوں کو امام صاحب کی دلیل پر ترجیح دیتے ہیں اور اس کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں، اور مشائخ کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے امام صاحب کے قول سے عدول اس وجہ سے کیا ہے کہ ان کو امام صاحب ؒ کے قول کی دلیل معلوم نہیں تھی، کیوں کہ ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ انھوں نے دلائل قائم کر کے کتابیں بھردی ہیں، پھر وہ کہتے ہیں کہ فتویٰ مثال کے طور پر امام ابویوسف ؒ کے قول پر ہے۔
اور ہم میں جب دلائل میں غوروفکر کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اور ہم تفریع وتاصیل 1 کی شرائط حاصل کرنے میں مشائخ کے درجے تک نہیں پہنچ سکے ہیں تو ہمارے ذمے ان مشائخ کے اقوال کو نقل کرنا ہے، کیوں کہ وہی حضرات مذہبِ حنفی کے وہ پیروکار ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو مذہب کو مدلل کر نے کے لیے اور اپنے اجتہاد سے اس کو سنوار نے کے لیے تیار کررکھاہے۔
تاییدات : ۱۔ اور وہ بات آپ ضرور دیکھ لیں جوہم پہلے علامہ قاسم کے حوالے سے ذکر کر آئے ہیں کہ مسلکی مجتہدین کا دور اس وقت تک ختم نہیں ہواجب تک انھوں نے تمام اختلافی مسائل میں غور وخوض نہیں کر لیا، اور تر جیح و تصحیح کا کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچادیا (الی قولہ) پس ہمارے ذمے راجح کی پیر وی لازم ہے، اور اس کے مطابق عمل کر نا ضروری ہے، جیساکہ وہ حضرات اگر اپنی زندگی میں فتویٰ دیتے تو اس کی اتباع لازم تھی۔
۲۔ اور علامہ ابن الشلبی 2 کے فتاویٰ 3 میں ہے کہ: