دونوں قول اس کے نزدیک مساوی ہیں۔ وعلی ھذا (یعنی جب دونوں قولوں پر فیصلہ کرنا درست ہے تو) وہ دونوں قول اس مجتہد کی طرف منسوب کیے جاسکتے ہیں۔ اور بعض اصولیوں کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ ایسی صورت میں کوئی بھی قول اس مجتہد کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔ نیز بعض حضرات کا یہ خیال بھی درست نہیں ہے کہ صرف ایک قول کی مجتہد کی طرف نسبت ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ دوسرے قول سے امام کا رجوع متعین نہیں ہے، اس لیے کہ مفروضہ صورت یہ ہے کہ مجتہد کی رائے میں دونوں پہلو برابر ہیں، کسی ایک پہلو کو دوسرے پہلو پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔
رجوع کے بعد قول باقی نہیں رہتا: ہاں اگر مجتہد کے نزدیک ایک پہلو راجح ہو جائے دوسرے پہلو سے رجوع اور اعراض کیے بغیرتو راجح پہلو اس کی طرف منسوب کیا جائے، گا اور دوسرے پہلوکو روایت کے طور پر ذکر کیا جائے گا۔ اور اگر مجتہد دوسرے پہلو سے بالکلیہ اعراض کر لے تو وہ اس کا قول ہی باقی نہیں رہے گا، اس صورت میں اس کاقول صرف راجح پہلو ہو گا۔
رجوع سے اختلاف ختم نہیں ہوتا: لیکن مجتہد کے رجوع کر نے سے مسئلے میں اختلاف ختم نہیں ہوتا، بعض شوافع نے ایسا ہی بیان کیا ہے، اور بعض نے اس کی تائید میں یہ بات پیش کی ہے کہ اگر کسی دور میں لوگ کسی مسئلے میں اختلاف کر نے کے بعد کسی ایک بات پر متفق ہوجائیں توسابق اختلاف کے ختم ہونے کے بارے میں اصولیوں نے دوقول نقل کیے ہیں، پس جس مسئلے میں اجماع نہ ہواہو اس میں تو بدرجہ اولیٰ اختلافِ سابق ختم نہ ہوگا۔
کیاتعاضِ ادلہ اختلافِ اقوال کاسبب ہو سکتاہے؟ لیکن ہماری اصولِ فقہ میں جوبات مذکور ہے کہ مجتہد کے کسی مسئلے میں دو قول ہوں یہ بات ممکن ہی نہیں جیساکہ تحریر کے حوالے سے یہ بات پہلے گزر چکی ہے، یہ بات اس کے منافی ہے کہ تعارضِ ادلہّ کو اختلافِ اقوال کاسبب بنا یا جائے۔ کیوں کہ وہ بات بظاہر اس بات پر مبنی ہے جو علما نے تعارضِ ادلہ کی بحث میں ذکرکی ہے کہ جب دوآیتوں میں تعارض ہوتو حدیث کی طرف رجوع کیا جائے، اور دو حدیثوں میں تعارض ہو تو اقوالِ صحابہ کی طرف رجوع کیا جائے، اور صحابہ کے فتاویٰ میں تعارض ہوتو قیاس کی طرف رجوع کیا جائے ، اور دو قیاسوں میں