تو اگر وہ تھوڑا ہے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اور زیادہ ہے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اور امام زفر فرماتے ہیں کہ دونوں صورتوں میں ٹوٹ جائے گا، اور چنے کی مقدار قلیل وکثیر کے درمیان حدِ فاصل ہے، اور اگر اس گوشت کو باہر نکالا، اور ہاتھ میں لے لیا، پھر کھا گیا تو اس کا روزہ (بہر صورت) ٹوٹ جانا چاہیے، اور چنے کی مقدار میں امام ابویوسف ؒ کے نزدیک قضا واجب ہے، کفارہ واجب نہیں، اور امام زفر ؒ کے نزدیک کفارہ بھی واجب ہے، امام زفر ؒ کی دلیل یہ ہے کہ وہ گوشت کا کھانا ہے اگر چہ وہ سڑاہوا ہے، اور امام ابویوسف ؒ کی دلیل یہ ہے کہ طبیعت اس کو کھانے سے گھن کرتی ہے (ہدایہ کی عبارت تمام ہوئی)، اس مسئلے کی شرح میں علامہ ابن الہمام ؒ نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بعینہ پیش ہے:
’’اور تحقیقی بات یہ ہے کہ پیش آنے والے واقعات میں فتویٰ دینے والے میں ایک درجے کی اجتہاد کی صلاحیت اور لوگوں کے احوال سے واقفیت ضروری ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ کفارہ کمالِ جنایت کا محتاج ہے۔ اس لیے مفتی واقعے کے احوال میں غور کرے، اور اگر وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی طبعیت ایسا گوشت کھانے سے گھن کرتی ہے تو امام ابویوسف کا قول لے، اور اگر صاحبِ واقعہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے نزدیک ایسا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں تو وہ امام زفر ؒ کے قول پر فتویٰ دے۔‘‘
ایک سوال: اور علامہ قاسم ؒ کی تصحیح القدوري میں ہے کہ اگر کوئی پوچھے کے علما کبھی تر جیح دیے بغیر اقوال نقل کرتے ہیں اور کبھی ان حضرات میں تصحیح کے سلسلے میں اختلاف ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: تو میں جواب دوں گا کہ مفتی وہی کرے جو علما کرتے ہیں، یعنی عرف اور لوگوں کے احوال کی تبدیلی کا اعتبار کرے، اور اس قول کو لے جس میں لوگوں کے لیے نرمی ہے، اور جس پر تعامل جاری ہے، اور جس کی دلیل مضبوط ہے، اور دنیا کبھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہوتی جوان باتوں میں واقعی امتیاز کرسکتے ہیں، محض خودفریبی نہیں، اور جو امتیاز نہیں کر سکتا وہ ان لوگوں کی طرف رجوع کرے جو امتیاز کرسکتے ہیں، تاکہ وہ اپنی ذمے داری سے عہدہ بر آسکے۔ (علامہ قاسم کی عبارت پوری ہوئی)
عرف خلافِ شرع نہ ہوتو فتویٰ میں اس کالحاظ ضروری ہے: الغرض یہ تمام عبارتیں اس بارے میں صریح ہیں جو ہم نے کہی ہے کہ عرف پر عمل ہوگا بشرطیکہ وہ عرفِ خلاف شریعت نہ ہو۔ جیسے ٹیکس، چنگی، سود اور اس قسم کی دوسری چیزیں (اگرچہ عام ہوگئی ہیں، مگر وہ خلافِ شرع ہیں) اسی لیے مفتی اور قاضی کے لیے بلکہ مجتہد کے لیے بھی عام لوگوں کے احوال کا جانناضروری ہے، اور علما نے فر مایا کہ ’’جو شخص اہلِ زمانہ کو نہیں جانتا وہ نادان ہے (من جھل بأھل زمانہ فھو جاہل) اور ہم پہلے علما کا یہ قول بھی نقل کر آئے ہیں کہ جن معاملات کا تعلق قضا سے ہے ان میں امام ابویوسف ؒ کے قول