یہ اس صورت میں ہے جب کہ تصحیح میں تعارض ہو، یا تصحیح کی بالکل تصریح نہ ہو۔
۶۷
فَتَأْخُذُ الَّذِيْ لَہٗ مُرَجِّحْ
مِمَّا عَلِمْتَہٗ فَھَذَا الْأَوْضَحْ
پس لیجیے آپ اس قول کوجس کے لیے کوئی مرجح ہو۔ ان مرجحات میں سے جن کو آپ جان چکے، پس یہ نہا یت واضح بات ہے۔
تصحیح کو ترجیح دینے کی دس صورتیں: جب میں مختلف اقوال میں سے کسی ایک قول کی تصحیح کی علامتیں (مخصوص) بیان کر چکا، اور یہ بھی بتا چکا کہ تصحیح کے بعض الفاظ میں بعض سے زیادہ تاکید ہے، اور اس کا فائدہ تصحیح میں تعارض کے وقت ہی ظاہر ہوتا ہے۔ اور تعارض کی صورت یہ ہے کہ تصحیح کرنے والوں نے دونوں قولوں کی تصحیح کی ہو تو اب میں نے ان باتوں کو ان اشعار میںایسی شاندار تفصیل سے پیش کیا ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نے ایسا بیان نہیں کیا، اور یہ تفصیل انہی مضامین سے ماخوذ ہے جن کو میں پہلے ممھد کر آیا ہوں۔
اور وہ تفصیل یہ ہے کہ فقہا کا یہ قول کہ: ’’جب کسی مسئلے میں دوقول تصحیح شدہ ہوں تو مفتی کو اختیار ہے۔‘‘ یہ بات علی الاطلاق (ہر حال میں) نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں ہے جب کسی قول کے لیے کوئی وجہ ترجیح موجود نہ، ہونہ تصحیح سے پہلے نہ تصحیح کے بعد، اور وجوہِ ترجیح دس ہیں۔ جودرج ذیل ہیں:
پہلی وجہ ترجیح: یہ ہے کہ ایک قول کی تصحیح لفظ صحیح سے ہو، اور دوسرے کی لفظ أصح سے، اور اس بارے میں گفتگو پہلے ہوچکی ہے اور یہ بات بھی گزر چکی ہے کہ مشہور قول أصح کی صحیح پر ترجیح ہے۔