کرے گا جس کی دلیل زیادہ قوی ہو۔
تائیدات : ۱۔ فتاویٰ سراجیہ 1 میں کہا ہے۔
’’پھر فتویٰ مطلقاً امام ابوحنیفہ ؒ کے قول پر ہے (خواہ ان کے ساتھ ان کا کوئی شاگرد ہو یا نہ ہو)، پھر امام ابویوسف ؒ کے قول پر، پھر امام محمد ؒ کے قول پر، پھر امام زفر اور حسن بن زیاد کے قول پر ، اور کہاگیا ہے کہ اگر امام ابو حنیفہ ؒ ایک طرف ہوں اور صاحبین دوسری طرف تو مفتی کو اختیار ہوگا، اور پہلاقول اس صورت میں زیادہ صحیح ہے جب مفتی مجتہد نہ ہو ‘‘(فتاویٰ سراجیہ علی ہامش الخانیہ ص ۴۸۱، کتاب ادب المفتی والتنبیہ علی الجواب)
۲۔ تنویر الابصار کتاب القضاء کے شروع میں بھی ایسا ہی مضمون ہے، (دیکھیے شامی ۴/۳۳۶)، اور الحاوی القدسي کے آخر میں کہا ہے کہ:
’’جب کسی مسئلے میں امام ابوحنیفہ ؒ کی کوئی روایت موجود نہ ہو تو امام ابویوسف ؒ کے ظاہر قول کو لیا جائے گا، پھر امام محمد ؒ کے ظاہر قول کو، پھر امام زفر ؒ اور امام حسن ؒ وغیرہ امام صاحب کے تمام بڑے تلامذہ کے اقوال کو درجہ بدرجہ لیا جائے گا‘‘۔
اور مذکورہ عبارت سے پہلے کہا ہے کہ:
’’جب صاحبین کا قول امام صاحب کے موافق ہو تو اس سے تجاوز نہیں کیا جائے گا، مگر جہاں ضرورت پیش آئے، اور یہ بات معلوم ہو جائے کہ اگر امام ابوحنیفہ ؒ وہ احوال دیکھتے جو بعد کے مشائخ کے سامنے آئے ہیں تو امام صاحب بھی ضرور یہی فتویٰ دیتے (پس ایسی صورت میںائمہ ثلاثہ کے متفقہ فیصلے سے بھی عدول کیا جاسکتاہے)، اسی طرح اگر صاحبین میں سے کوئی امام صاحب کے ساتھ ہو (تو بھی یہی حکم ہے کہ بے ضرورت اس سے عدول نہیں کیا جائے گا ) اور اگر صاحبین دونوں ہی بظاہر امام صاحب کے خلاف ہوں تو بعض مشائخ کی رائے یہ ہے کہ امام صاحب کے قول کو لیا جائے گا اور بعض دوسرے حضرات کی رائے یہ ہے کہ مفتی کو اختیار ہوگا، چاہے تو امام صاحب کے قول پر فتویٰ دے، چاہے تو صاحبین کے قول کے مطابق فتویٰ دے، اور اصح یہ ہے کہ دلیل کی قوت کا اعتبار ہے الخ۔ ‘‘
ماحصل اور خلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔ جب امام صاحب اور صاحبین کسی حکم پر متفق ہوں تو اس سے بغیر کسی مجبوری کے عدول جائز نہیں۔
۲۔ اسی طرح بے ضرورت عدول جائز نہیں جبکہ صاحبین میں سے کوئی ایک امام صاحب کے موافق ہو۔
۳۔ اورجب امام صاحب کسی حکم میں صاحبین سے متفرد ہوں، اور صاحبین دونوں ہی امام صاحب سے اس حکم میں اختلاف رکھتے ہوں تو۔
الف۔ اگر صاحبین میں سے بھی ہر ایک کسی حکم کے ساتھ متفرد ہے بایں طور کہ وہ دونوں حضرات بھی کسی ایک حکم پر