’’جب حدیث ثابت ہوجائے تو وہ میرا مذہب ہے۔ ‘‘علامہ ابن عبدالبر مالکی 3 ؒ نے یہ بات امام ابوحنیفہ ؒ وغیرہ ائمہ کرام سے نقل کی ہے الخ۔
اور یہی بات امام شعرانی 4 نے بھی چاروں ائمہ سے نقل کی ہے (باقی بات آگے آرہی ہے)
حدیث پر عمل کے لیے اہلیت شرط ہے: میں (علامہ شامی) کہتاہوں کہ یہ بات مخفی نہیں ہے کہ امام صاحب کے قول کو چھوڑ کر حدیث شریف پر عمل کر نے کا حق اس شخص کو ہے جو نصوص میں غوروفکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور محکم ومنسوخ نصوص کو پہچان سکتا ہے۔
(بات درمیان میں بطورِ فائدہ کے تھی، اب سلسلہ کلام گزشتہ عنوان سے مر بوط ہے) پس جب کسی مسلک والے دلیل میں غور کریں گے، اور امام کا قول چھوڑ کر نص کے مطابق عمل کریں گے تو اس عمل کی نسبت مذہب کی طرف کر نا درست ہے، کیوں کہ وہ عمل صاحبِ مذہب کی اجازت سے صادر ہواہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر صاحبِ مذہب کو اپنی دلیل کی کمزوری معلوم ہوجاتی تو وہ ضرور اپنے قول سے رجوع کر لیتا اور قوی تر دلیل کی پیروی کر تا اور اسی وجہ سے جہاں مشائخ نے صاحبین کے قول پر فتویٰ دیا ہے، محقق ابن الہمام ؒ نے یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ: ’’امام صاحب ؒ کے قول سے اعراض صرف ان کی دلیل کی کمزوری کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘(کیوں کہ دلیل کی کمزوری کی صورت خود امام صاحب ؒ اپنی رائے کو چھوڑ دیتے ہیں، اس لیے ہم بھی چھوڑ سکتے ہیں)۔
مذہب کے دائرے میں رہنا ضروری ہے: اور میں یہ بھی کہتاہوں کہ مذکورہ بات کو اس شرط کے ساتھ مقید کیا جانا چاہیے کہ وہ حدیث مسلک کے کسی قول کے موافق ہو (تو اس پر عمل کیا جاسکتاہے)، کیوں کہ علما نے ایسے اجتہاد کی اجازت نہیں دی ہے کہ جس سے ہمارے ائمہ کے متفق علیہ مذہب سے بالکلیہ خروج لازم آتا ہو۔ اس لیے کہ ائمہ کا اجتہاد اس کے اجتہاد سے قوی تر ہے۔ پس ظاہر یہ ہے کہ ائمہ کے علم میں اس کی دلیل سے راجح تر کوئی دلیل ضرور آئی ہوگی، جس کی بناپر ان حضرات نے اس شخص کی دلیل پر عمل نہیں کیا۔
اور اسی شرط کی وجہ سے علامہ قاسم نے اپنے استاذ خاتم المحققین کمال ابن الہمام کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’ہمارے استاذ کی ان تحقیقات پر عمل نہیں کیا جائے گاجو مذہب کے خلاف ہیں ‘‘۔ اور علامہ قاسم ؒ نے اپنی کتاب التصحیح والترجیح علی