’’حق یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات مجتہدِ مطلق تھے۔ دونوں نے اجتہادِ مطلق کا رتبہ حاصل کر لیا تھا، مگر استاذ کی تعظیم کرتے ہوئے اور غایتِ ادب سے انھوں نے استاذ ہی کے اصولوں کو اپنا لیا، اور انہی کی روش اختیارکی۔ اور ان کے مذہب کی نشر واشاعت اور تائید ونصرت میں لگ گئے، اور اپنے آپ کوان کی طرف منسوب کر دیا، اس لئے ان کومجتہدِ مطلق کے بجائے مجتہدفی المذہب شمار کیا گیا ہے۔ ‘‘
۲۔ امام خصاف، امام طحاوی اور امام کرخی ؒ کو تیسرے طبقے میںشمار کیا ہے، حالاں کہ ان حضرات کادرجہ اس سے بلندہے۔ کیوںکہ انھوں نے بہت سے مسائل میں امام اعظم سے اختلاف کیا ہے، جیساکہ کتبِ فقہ اورکتبِ خلافیات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔
۳۔ ابوبکر جصاص رازی ؒ کا درجہ بہت گھٹا دیا ہے۔ ان کو چوتھے درجے میں شمار کیا ہے۔ حالاں کہ آپ طبقہ سوم والوں سے یعنی حلوانی اورقاضی خان وغیرہ سے زمانہ اور علم دو نوں میں بڑھے ہوئے تھے۔ حضرت الاستاذ مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری قدس سرہ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند فرمایا کرتے تھے کہ جصاص ؒ امام شافعی ؒکے درجے کے آدمی ہیں۔
صاحبِ ہدایہ اور قدوری کا درجہ بھی گھٹا دیا ہے۔ یہ دو نوں حضرات قاضی خان سے بلند رتبہ ہیں۔ ورنہ کم ازکم برابر تو ضرور ہیں۔
فتویٰ دینے سے پہلے تحقیق ضروری ہے: علامہ خیرالدین رملی ؒ نے فتاویٰ خیریہ1 کے آخر میں ایک فتویٰ کے ضمن میں لکھا ہے کہ:
ٔٔ’’مختلف فیہ مسائل میں راجح مرجوح کوپہچاننا اور قوی وضعیف کو جاننا علمِ فقہ کی تحصیل میں پائینچے چڑھا نے والوں کی آخری آرزو ہے۔ مفتی اور قاضی کے لیے فرض ہے کہ تحقیق کے بعد جواب دیں۔ اٹکل پچونہ ہانک دیں۔ حلال کوحرام اورحرام کوحلال کر کے اﷲتعالیٰ پرافتراء کرنے سے ڈریں، اور اتباعِ ہویٰ، خواہشات کی پیروی اورمال کی طرف میلان حرام ہے۔ یہ مال توبڑی آفت اور مصیبتِ کبریٰ ہے۔ غرض فتویٰ دینا نہایت اہم کام ہے، اس معاملے میں بے باک، بد بخت و جاہل ہی ہوسکتا ہے۔ ‘‘
(فتاویٰ خیریہ ج ۲، ص: ۱۳۱)