کرے اور اﷲ تعالیٰ سے ڈرے، کیوں کہ فتویٰ دینا نہایت اہم معاملہ ہے۔ اس کی جسارت ہر جاہل بد بخت ہی کر تا ہے۔
اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ:
’’اگر مسئلہ غیر ظاہر الروایہ میں ہے تو اگر وہ مسئلہ ہمارے ائمہ کے اصول وضوابط کے موافق ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا، اور اگر کسی مسئلے میں ہمارے ائمہ سے کوئی روایت نہ پائی جائے اور اس مسئلے میں متاخرین کسی بات پر متفق ہوں تو اس پر عمل کیا جائے گا، اور اگر متاخرین میں اختلاف ہو تو مفتی اجتہاد کرے، اور اس کے نزدیک جو بات درست ہو اس کے مطابق فتویٰ دے، اور اگر مفتی مقلد ہو، مجتہد نہ ہو تو اپنی رائے میں افقہ کے قول کو لے، اور جواب میں اس کا حوالہ دے، اور اگر اس کہ نزدیک جوافقہ ہے وہ کسی اور شہر میں ہے تو اس سے خط کے ذریعے رابطہ قائم کرے، اور تحقیق کے بعد جواب لکھے اور اٹکل سے جواب نہ لکھ دے، حلال کو حرام اورحرام کو حلال کر کے اﷲ تعالیٰ پر افتراپردازی سے ڈرے۔‘‘ (قاضی خان بر حاشیہ عالم گیری: ج ۱، ص: ۳)
فتویٰ میں صریح حوالہ ضروری ہے: میں کہتا ہوں کہ قاضی خان ؒ کے اس قول سے کہ:’’اگر مفتی مقلد ہو، مجتہد نہ ہو۔ الخ‘‘ یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ مقلد محض کے لیے ان مسائل میں جن میں کسی فقیہہ سے صراحتاً حکم مروی نہیں ہے فتویٰ دینا جائز نہیں، اور اس کی تائید اس قول سے ہوتی ہے جس کو البحرالرائق (۶/۲۶۸)میں فتاویٰ تاتارخانیہ(۱/۸۲ مقدمہ کی ساتویں فصل ) سے نقل کیا ہے: اگر متاخرین میں اختلاف ہوتو مفتی کسی ایک کے قول کو لے، اور اگر متاخرین میں سے کسی کا قول نہ پائے تو وہ خود اجتہاد کرے جب کہ وہ فقہ کی وجوہ جانتا ہو، اور فقہا سے مشورہ بھی کرے الخ۔
تاتارخانیہ کا یہ قول کہ جب وہ فقہ کی جملہ تفصیلات سے واقف ہو الخ اس بات کی دلیل ہے کہ جو مفتی یہ نہیں جانتا، بلکہ اس نے فقہ کی کوئی ایک کتاب یا اس کا اکثر حصہ پڑھ لیا ہے اور اس کو سمجھ لیا ہے، اور اس میں کتابوں کی مراجعت کرنے کی صلاحیت پیداہوگئی ہے، اور مشہور قابلِ اعتماد کتابوں میں مسئلہ کہاں ملے گا اس کو جاننے کی اس میں استعداد پیداہوگئی ہے، ایسا شخص جب کوئی واقعہ کسی کتاب میں نہ پائے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے سے فتویٰ دے دے، بلکہ اس کے ذمے واجب ہے کہ وہ اپنی لاعلمی ظاہر کرے، جیساکہ اس سے بڑے مرتبے والوں نے لاعلمی ظاہر کی ہے،یعنی مجتہدین صحابہ نے، اور ان کے بعد کے مجتہدین نے، بلکہ اس ہستی نے جومؤید بالوحی تھی ﷺ۔