نہیں ہے۔‘‘
اور علامہ قاسم ؒ نے مذکور قول کا جو مطلب بیان کیاہے اس کی ان کے استاذ محقق ابن الہمام نے فتح القدیر میں صراحت کی ہے۔
٭٭٭٭٭
خاتمہ
اﷲعلیم وخبیر کی مدد سے عقود رسم المفتي کی تقریر ،توضیح اور تحریر پایہ تکمیل کوپہنچی ۔ دست بدعاہوں کہ اﷲ تعالیٰ اس کو اپنی ذات کے لیے خالص اور روزِ محشر کامیابی کا ذریعہ بنائیں، اور جن خطائوں اورگناہوں کا میں نے ارتکاب کیا ہے ان سے درگزر فرمائیں:
فإنہ العزیز الغفار، والحمد للّٰٰہ تعالی أولا وأخرا وظاہرا وباطنا، والحمد للّٰہ الذي بنعمتہ تتم الصالحات وصلی اللّٰہ تعالی علی سیدنا محمد وعلی الہ وصحبہ وسلم، والحمد للّٰہ رب العلمین۔
یہ تحریراس کے جامع فقیر محمد عابدین کے قلم سے پایہ تکمیل کو پہنچی ،اﷲتعالیٰ اس کی، اس کے والدین کی، اس کے اساتذہ کی، اس کی اولاد کی اور تمام مسلمانوںکی مغفرت فرمائے۔ (آمین) اور یہ اختتام ماہ ربیع الثانی ۱۲۴۳ھ میںہوا۔
اور اس کا ترجمہ تصنیف سے ۱۶۹ سال بعد ربیع الثانی ۱۴۱۲ ھ میں عاجز سعید احمدعفااﷲعنہ پالن پوری خادم دارالعلوم دیوبند کے قلم سے اور نورِچشم مولوی مفتی رشید احمد سلمہ ، متعلم دارالافتا دارالعلوم دیوبند کے تعاون سے پورا، ہوااﷲتعالیٰ ترجمے کو بھی اصل کی طرح قبول فرمائیں، اور ذخیر آخرت بنائیں۔ (آمین یارب العالمین)۔
اور اس کی تبییض ۱۲ ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ کو لختِ جگر مفتی رشید احمد پالن پوری قدس سرہ کی وفات سے تقریباًساڑھے پانچ ماہ بعد مکمل ہوئی ۔ آن عزیز کی وفات کا حادثہ ۶، ۷ مارچ ۱۹۹۵ء بمطابق ۴، ۵ شوال ۱۴۱۵ھ پیر منگل کی درمیانی رات میںپیش آیا، جس کی تفصیل مقدمے میں ہے۔
فر حمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ، وأسکنہ فسیح جنانہ وأجزل علیہ رضوانہ وصلی اﷲ علی حبیبہ سیِد نا محمد والہ وأصحبہ أجمعین والحمد ﷲ رب العالمین ۔