فائدہ: علامہ شامی ؒ نے ردالمحتار ۱/۳۷ میں لکھا ہے کہ صغیر نامی کتابیں امام محمد ؒ کی امام ابویوسف سے روایتیں ہیں، اور کبیر نامی کتابیں امام محمد ؒ کی براہِ راست امام اعظم سے روایتیں ہیں۔
متفق علیہ مسائل: محقق ابن الہمام کے شاگرد علامہ قاسم کے فتاویٰ میں علامہ ابن الہمام کا یہ قول ذکر کیا گیا ہے کہ جن مسائل میں امام محمد ؒ اپنی کتابوں میں اختلاف ذکر نہیں کر تے وہ ائمہ ثلاثہ کی متفق علیہ رائے ہوتی ہے۔
سیرِ کبیر کی وجہ تصنیف: امام شمس الائمہ سرخسی ؒ نے شرح سیر کبیر کے شروع میں لکھا ہے کہ سیر کبیر امام محمد ؒ کی سب سے آخری فقہی تصنیف ہے، (ج۱، ص۱) پھر آگے لکھا ہے کہ سیرِ کبیر لکھنے کی تقریب یہ بنی کہ امام محمد کی سیرِ صغیر شام کے عالم امام عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی کو پہنچی۔ انھوں نے دریافت کیا کہ یہ کس کی تصنیف ہے؟ بتایا کہ عراق کے عالم امام محمد کی ہے۔ امام اوزاعی نے فر مایا کہ:
’’اہلِ عراق کو اس باب میں تصنیف کا کیا حق ہے؟ان لوگوں کو آں حضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی جنگوںکے احوال معلوم نہیں ہیں۔ غزوات شام اور حجاز میں ہوئے ہیں، نہ کہ عراق میں، وہ تو نیافتح شدہ علاقہ ہے‘‘
امام اوزاعی کایہ تبصرہ جب امام محمد ؒ کو پہنچا تو ان کو بہت طیش آیا، اور یکسو ہو کر سیرِ کبیر لکھی۔ کہتے ہیں کہ جب یہ دوسری کتاب امام اوزاعی کو پہنچی تو فر مایا کہ:
’’اگر مصنف نے اس کتاب میں حدیثیں شامل نہ کی ہوتیں تو میں یہ کہتا کہ یہ شخص اپنی طرف سے علم ایجاد کر تا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے اجتہاد میں صحیح جواب کا رخ متعین کر دیا ہے۔ بے شک اﷲتعالیٰ کا ارشاد برحق ہے کہ ہرعلم والے پر بڑاعلم والا ہے۔‘‘1
پھر امام محمد ؒ خدام کو حکم دیاکہ سیر کبیر کو ساٹھ رجسٹروں میں لکھا جائے اور بیل گاڑی میںلاد کر دربارِ شاہی میں پیش کیا جائے۔ بادشاہ کو یہ بہت پسند آئی، اور اس نے اس کتاب کو اپنے زمانہ کے قابل فخر کارناموں میں شمار کیا۔
اور علامہ بیری کی شرح اشباہ میں ہے کہ:
’’ہمارے علما فر ماتے ہے کہ جب کو ئی مسئلہ مختلف فیہ ہو تو مجتہد (مقید) کے لیے افضل اور بہتر یہ ہے کہ دلائل میں غور