وَاٰخِرُ السِّتَّۃِ تَصْنِیْفًا وَرَدْ
اَلسِّیَرُ الْکَبِیْرُ فَھُوَ الْمُعْتَمَدْ
اور منقول ہے کہ چھ میں آخری تصنیف سیرِ کبیر ہے، پس وہی معتمد علیہ ہے۔
تشریح: ذا اسمِ اشارہ کونہ أصلا مشارالیہ۔ سبق مصدر مضاف الی الفاعل ،الستۃ مفعول بہ تصنیفات تمییز ہے، جو نسبت کے ابہام کو دور کرنے کے لیے ہے۔ کذا کا تعلق آئندہ شعر سے ہے۔ مصرعہ رابع کی سلیس عبارت اس طرح ہے۔ فلھذا ما في الجامع الصغیر تقدم علی الأصل، مصرعہ خامس میں تصنیفا بھی تمییز ہے۔
اصول اور غیر اصول کی روایتیں: پہلے یہ بات بیان کی جاچکی ہے کہ ظاہر الروایۃ کی کتابیں اصول کہلاتی ہیں۔ ہدایہ باب التیمم میں ہے: وعن أبي حنیفۃ وأبي یوسف في غیر روایۃ الأ صول إلخ اس کی شرح میں ہدایہ کے شارحین لکھتے ہیں کہ:
’’روایت الاصول سے مراد جامعِ صغیر، جامعِ کبیر، زیادت اور مبسوط کی روایتیں ہیں۔ اور روایت غیر اصول سے مراد نوادر، امالی، رقیات ، کیسانیات اور ہارونیات کی روایتیں ہیں۔‘‘ (عنایہ: ۱/۱۲۰)
اور فقہا بارہا کہتے ہیں کہ ذکرہ محمد في الأصل، اور شارحین اس کی تفسیر مبسوط سے کر تے ہیں۔ معلوم ہواکہ لفظ اصل جب مفرد ہو تو اس سے مبسوط مراد ہوتی ہے۔ اصول کی سب کتابوں میں سے مبسوط ہی اس نام کے ساتھ مشہور ہے۔ البحرالرائق 1 باب صلاۃالعیدین میں غایۃ البیان سے نقل کیا ہے کہ:
’’اصل کو اصل اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلے لکھی گئی ہے۔ پھر جامعِ صغیر، پھر جامعِ کبیر، پھر زیادات لکھی گئی ہیں۔‘‘
نیز البحر الرائق میں یہ بھی ہے کہ:
’’جامعِ صغیر کو امام محمد ؒ نے اصل کے بعد لکھا ہے، اس لیے جو مسئلہ جامع صغیر میں ہوگا وہی معتمد علیہ ہوگا۔‘‘ (بحر: ۱/۱۵۸)