۳۔ اسی طرح مشائخ نے جن مسائل کا بدلے ہوئے زمانے پر اور ضرورت پر مدار رکھا ہے یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر امام صاحب زندہ ہوتے تو وہ بھی وہی بات فر ماتے جوان مشائخ نے کہی ہے، کیوںکہ مشائخ نے جو کچھ کہاہے وہ بھی امام صاحب ؒ ہی کے اصولوں پر مبنی ہے، اس لیے وہ بھی امام صاحب ؒ کے مذہب کامقتضی ہے (یہ مذہب میں مسکوت عنہ مسائل ہیں، جن کے احکام بعد کے مشائخ نے مرتب کیے ہیں، اور ایسے مسائل بے شمار ہیں۔ حوادث الفتاویٰ یعنی ہر دور میں جدید پیش آنے والے مسائل بھی اسی قسم میں داخل ہیں)۔
مستزاد مسائل کے لیے مناسب تعبیر: مگر اس قسم کے بڑھائے ہوئے مسائل میں قال أبو حنیفۃ کذا (امام صاحب نے یہ فر مایا ہے) کہنامناسب نہیں، یہ تعبیر صرف ان مسائل میں ہو نی چاہیے جو امام صاحب سے صراحتاً مروی ہیں۔ مستزاد مسائل کی تعبیر مقتضیٰ مذھب أبي حنیفۃ کذا (امام صاحب کے مذہب کامقتضا یہ ہے) ہونی چاہیے، اور اس کی وضاحت ہم پہلے کرچکے ہیں کہ یہ مستزاد مسائل امام صاحب کے مذہب کا مقتضا کیسے ہیں۔ اور یہی تعبیر ان مسائل میں بھی ہونی چاہیے، جن کی مشایخ نے امام صاحب کے قواعد وضوابط پر تخریج کی ہے، یا امام صاحب ؒ کے کسی قول پر قیاس کر کے بات کہی ہے، اور جس کے لیے یہ تعبیر بھی آتی ہے کہ علی قیاس قولہ بکذا یکون کذا (یعنی امام صاحب کے فلاں قول کے انداز پر اس مسئلے کا یہ حکم ہے)۔
غرض ان سب صورتوں میں قال أبو حنیفۃ نہیں کہاجائے گا۔ ہاں ان سب کو امام صاحب کا مذہب کہہ سکتے ہیں بایں معنی کہ وہ امام صاحب کے متبعین کے اقوال ہیں یا امام صاحب کے مذہب کامقتضا ہیں۔
اقوالِ تلامذہ اقوالِ امام ہونے کی دلیل: اور اسی وجہ سے کہ تلامذہ کے اقوال بھی امام صاحب کے اقوال ہیں۔ الدّرر والغرر کے مصنف ملا خسرو ؒ 1 نے جب کتاب القضاء میں یہ مسئلے بیان کیاکہ ’’جب قاضی کسی مختلف فیہ مسئلے میں امام صاحب کے مذہب کے خلاف فیصلہ کرے تو وہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔‘‘ توشرح میں اس کی وضاحت اس طرح کی ہے :
’’یعنی قاضی اصل مذہب کے خلاف فیصلہ کرے مثلاً حنفی قاضی امام شافعی ؒ یا ان جیسے کسی اور مجتہد کے مذہب کے مطابق فیصلہ کرے، یا اس کے برعکس یعنی شافعی قاضی مذہبِ حنفی کے مطابق فیصلہ کرے(تووہ فیصلہ نافذ نہ ہوگا)، لیکن اگر حنفی قاضی امام ابویوسف ؒ یا امام محمد ؒ یا ان جیسے امام اعظم ؒ کے دیگر تلامذہ کے اقوال پر فیصلہ کرے تو اس کو امام اعظم کی رائے کے خلاف فیصلہ نہیںکہا جائے گا۔ (دررالحکام: