مازہ کے فتاویٰ صغریٰ سے منقول ہے کہ:
’’کفر نہایت سنگین بات ہے، اس لیے میں کسی کوکافر نہیں قراردیتا، جب مجھے کوئی ایسی روایت مل جاتی ہے جس سے اس کے کفر کی نفی ہوتی ہو ‘‘۔
پھر ابنِ نجیم ؒ نے (۵/۱۲۵ میں) فرمایا ہے:
’’اور وہ بات جو منقح ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ کسی ایسے مسلمان کی تکفیر کا فتویٰ نہیں دیا جا ئے گا جس کے کلام کو اچھے محل پر محمول کیا جاسکتا ہو، یا جس کلام کے کفر ہونے میں روایتیں مختلف ہوں، اگرچہ اختلاف پیداکرنے والی روایت ضعیف ہو۔‘‘
مرجوع عنہ قول منسوخ قول ہے: آٹھواں قاعدہ وہ ہے جو البحر الرائق میں ہے، اور اس کو ہم قریب ہی (پانچویںقاعدے میں) بیان کر آئے ہیں کہ جس قول سے رجوع کرلیا گیا وہ مجتہد کا مذہب باقی نہیں رہا، پس اس قول کو تلاش کر نا ضروری ہے جس کی طرف مجتہد نے رجوع کیا ہے، اور اسی پر عمل کیا جائے گا، کیوں کہ پہلا قول منسوخ حکم جیسا ہوگیا ہے، اور بحر ہی میں شیخ سراج الدین ہندی 1 کی ہدایہ کہ شرح التوشیح کے حوالے سے لکھا ہے کہ :’’جس قول سے مجتہد نے رجوع کرلیا ہے اس کو لینا جائز نہیں‘‘۔ اور التحریر کی شرح التقریر والتحبیر (۳/۳۳۴) میں مذکور ہے کہ :
’’اگر بعد کا قول معلوم ہو تو وہ مجتہد کامذہب ہوگا، اور پہلاقول منسوخ ہوگا، ورنہ مجتہد کے دونوںقول ان میں سے کسی کے بارے میں رجوع کافیصلہ کیے بغیر نقل کیے جائیںگے‘‘۔
۹۔ کسی قول کامتون میں ہونا اس کی ضمنی تصحیح ہے: نواں قاعدہ وہ ہے جو علامہ قاسم ؒ نے اپنی کتاب تصحیح القدوری میں ذکر کیا ہے کہ جو اقوال متون میں ہیں وہ التزامی طور پر تصحیح شدہ ہیں، اور صریح تصحیح التزامی تصحیح پر مقدم ہے۔
میں (علامہ شامی) کہتاہوں کہ علامہ قاسم کے قول کا حاصل یہ ہے کہ متون کے مصنفین نے اپنی کتابوں میں صحیح اقوال کو لینے کاالتزام کیا ہے، لہٰذا جو اقوال متون سے باہر ہیں جب تک ان کی صراحتاً تصحیح نہ کی جائے وہ صحیح کے مقابل ہوں گے، اور صریح تصحیح کے بعد ان کو متون کے اقوال پر مقدم کیا جائے گا، کیوںکہ جب ان کی صراحتاً تصحیح کی گئی تو اب وہ التزامی تصحیح پر مقدم ہوں گے۔ اور فتاویٰ خیریہ کی کتاب الشہادات(۲/۳۳) میں ایک سوال کے جواب میں ہے کہ’’ صحیح مفتی بہ مذہب جس کو متون والوں نے لیاہے، جومذہب کی صحیح روایات یعنی ظاہرِ روایت کو نقل کرنے کے لیے تصنیف کیے گئے