اسی قسم کی بات بعض شوافع سے مروی ہے۔ مثلاً علامہ ابوبکر محمد بن علی بن اسماعیل قفال شاشی ؒ (و: ۲۹۱ہجری، ف: ۳۶۵ ہجری)شیخ ابوعلی حسن بن حاجب بن حمیدشاشی ؒ (متوفی: ۳۱۴ھ)اور قاضی حسین بن محمد مروروذی ؒ 1 (متوفی: ۴۶۲ھ) فرمایا کرتے تھے کہ ہم امام شافعی ؒ کے مقلد نہیں ہیں، بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہوگئی ہے۔
اسی قسم کی بات امام ابوحنیفہ ؒ کے تلامذہ امام ابویوسف ؒ اور امام محمد ؒ کے بارے میں بدرجہ اولیٰ کہی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ ان حضرات نے بہت سی جزئیات میں امام صاحب ؒ کی مخالفت کی ہے، جوان کے مقلد نہ ہونے کی دلیل ہے۔ مگر بایں ہمہ ان تلامذہ کے اقوال مذہبِ حنفی سے خارج نہ ہوں گے، جیساکہ اس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔
علامہ شامی ؒ نے منہیہ میں لکھا ہے کہ پھر میں نے ایک قابلِ اعتماد عالم کی تحریر دیکھی جو بعینہ یہ ہے کہ ابن الملقن 2 نے طبقات الشافعیہ میں فرمایاہے۔
فائدہ: ابنِ برہان 1 نے اوسط میں فرمایا ہے کہ ہمارے اکابر اور حنفی اکابر میں امام مزنی، 2 ابن سریج، 3 امام ابویوسف ؒ اور امام محمد ؒ کے بارے میں اختلاف ہواہے۔ بعض ان کو مجتہدِ مطلق کہتے ہیں اور بعض مجتہد فی المذہب، اور امام الحرمین 4 نے فرمایا ہے کہ میرے خیال میں امام مزنی کی تمام رائیں تخریجات ہیں، کیوں کہ انھوں نے امام شافعی ؒ کی اصول میں مخالفت نہیں کی ہے۔ ان کا معاملہ امام ابویوسف اور امام محمد ؒ جیسا نہیں ہے، کیوں کہ وہ دونوں حضرات اصول میں بھی اپنے امام کی مخالفت کرتے اور ہیں امام رافعی ؒ 1 نے باب الوضو میں فرمایا ہے کہ امام مزنی کے تفردات مذہبِ شافعی میں شمار نہیں کیے جائیں گے، جبکہ امام مزنی نے ان جزئیات کی تخریج امام شافعی کے ضوابط پر نہ کی ہو(منہیہ تمام ہوا)
خلاصہ کلام: مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بات منقح ہوئی کہ امام اعظم ؒ اور ان کے تلامذہ کا یہ قول کہ لایحل لِأحد أن یفتي بقولنا حتی یعلم من این قلنا؟ کا مصداق مجتہد فی المذہب کا استنباط وتخریج کے طور پر فتویٰ دینا ہے (یعنی اس کے دو مطلبوں میں سے دوسرا مطلب صحیح ہے) جیساکہ تحریر اور شرح بدیع کی عبارتوں سے معلوم ہوا۔
مجتہد فی المذہب کون ہے؟ اور ظاہر یہ ہے کہ طبقہ ثالثہ، رابعہ اور خامسہ والے مجتہد فی المذہب ہیں، اور دیگر حضرات کو نقل پر اکتفاکر نی چاہیے، اور ہمارے ذمے مابعد طبقات والے ان طبقاتِ ثلاثہ والوں سے جو نقل کریں اس کی پیر وی کرنا ہے، یعنی ان کے وہ استنباطات جن کے بارے میں متقدمین سے کوئی صراحت مروی نہیں ہے، اور ان کی متقدمین کے اقوال پر ترجیحات اگر چہ وہ امام صاحب کے علاوہ کے قول کو تر جیح دیں۔ جیسا کہ ہم اس بحث کے آغاز میں مفصل بیان کر آئے ہیں، کیوں کہ ان حضرات نے جس کے قول کو بھی ترجیح دی ہے، محض اٹکل سے ترجیح نہیں دی ہے، بلکہ ان کے مآخذ سے واقف ہونے کے بعد ہی ترجیح دی ہے، جیساکہ ان کی تصنیفات اس بات پر شاہد ہیں، یہ بات علامہ ابنِ نجیم کی اس رائے