نہیں ہوسکتی۔‘‘ (ابنِ کمال پاشا کی عبارت پوری ہوئی)
وضاحت: ابنِ کمال پاشا کی رائے کا حاصل یہ ہے کہ روایت الاصول اور ظاہر الروایہ میں عام خاص مطلق کی نسبت ہے۔ روایت الاصول خاص ہے اور ظاہر الروایہ عام۔ کیوں کہ روایت الاصول امام محمد ؒ کی چھ کتابوں کے مسائل ہی کو کہا جاتا ہے، اور ظاہر الروایہ عام طورپر تو کتبِ ستہ کی روایات کو کہا جاتا ہے۔ مگر کبھی نوادر کی روایات کو بھی ظاہر الروایہ کہہ دیا جاتا ہے۔
جواب: میں (علامہ شامی) کہتاہوں کہ آپ سے یہ بات مخفی نہیں ہوگی کہ محیط اور ذخیرہ کایہ قول کہ ’’یہ حسن ؒ کی امام ابوحنیفہ ؒ سے روایت ہے۔ ‘‘اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اصول کی روایت کے خلاف ہوں۔ کیوںکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ اس کو حسن ؒ بھی امام ابو حنیفہ ؒ سے نوادر کی کتابوں میں روایت کر تے ہوں، اور امام محمد ؒ نے بھی اس کو کتبِ اصول میں روایت کیاہو، اور حسن ؒ کی روایت ذکر کرنے کی وجہ صرف یہ ہو کہ اس میں اضطراب نہیں ہے، کیوں کہ انھوں نے خود اس کی صراحت کی ہے کہ امام محمد ؒ کی روایتیں مختلف ہیں۔ پس سرخسی ؒ کا یہ کہنا کہ وہ ظاہر الروایۃ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ امام محمد ؒ نے اس کو کتبِ اصول میں ذکر کیا ہے، کیوںکہ امام محمد ؒ نے اصول میں امام اعظم ؒ کی جو مختلف روایتیں ذکر کی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالنا کہ نوادر کی روایت بھی کبھی ظاہر الروایہ ہوسکتی ہے صحیح نہیں ہے۔
ہاں یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ نوادر کی جو روایتیں کتبِ اصول میں بھی مذکور ہیں، جیسے یہ مسئلہ، وہ ظاہر الروایہ ہوسکتی ہیں، کیوں کہ کسی مسئلے کے نوادر میں مذکور ہونے سے یہ ہرگزلازم نہیں آتا کہ وہ کتب اصول میں نہ ہو۔ ابنِ کمال پاشا کی بات تو صرف اس صورت میں درست ہو سکتی ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ یہ مسئلہ ظاہر الروایہ کی کتابوں میں کہیں مذکور نہیں جب کہ محیط اور ذخیرہ کی عبارتیں اس پر دلالت نہیں کرتیں، اور اندریں صورت ہدایہ کے شارحین پر جن کا کلام ہماری باتوں کی تائید کرتا ہے، غفلت کا الزام لگانا درست بھی نہیں ہے۔ واﷲاعلم
سِیَرْ کے معنی: سِیَرْ، سِیْرَۃٌ کی جمع ہے، جس کے لغوی معنی ہیں کاموںکا انداز، اور اصطلاح میں آں حضرت ﷺ کا جنگوں میں جو طریقہ تھا وہ سیرت کہلاتاہے۔ ہدایہ (۲/۲۵۳) میں ایسا ہی ہے۔ اور مُغْرِبْ (۱/۴۲۷) میں ہے کہ:
’’عرف عام میں السیرالکبیر کہا جاتا ہے۔ حالاں کہ سیر غیرذوی العقول کی جمع ہے۔ پس صفت کبیرۃٌ آنی چاہیے، مگر لوگ