ہیں، یہ ہے کہ اندھے کی گواہی درست نہیں ہے‘‘۔
متون، شروح اور فتاویٰ کی درجہ بندی: پھر آگے (فتاویٰ خیریہ میں) لکھا ہے کہ جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ معتبر قول حقیقت میں وہ ہے جس پر متون متفق ہوں تو وہی قول معتمد علیہ اور معمول بہ ہوگا، کیوںکہ علما نے تصریح کی ہے کہ جب متون اور فتاویٰ کی باتوں میں تعارض ہوجائے تو قابلِ اعتماد وہ باتیں ہیں جو متون میں ہیں، اسی طرح جو باتیں شروح میں ہیں ان کو فتاویٰ کے مضامین پر مقدم رکھا جائے گا۔ اور البحر الرائق کی فصل الحبس (۶/۲۸۵)میں ہے:
’’اورعمل ان باتوںپر ہے جو متون میں ہیں، اس لیے کہ جب متون اور فتاویٰ کی باتوں میں تعرض ہوجائے تو قابلِ اعتماد وہ باتیں ہیں جو متون میں ہیں، جیساکہ انفع الوسائل میںہے، اسی طرح جوباتیں شروح میںہیں ان کو فتاویٰ کی باتوں سے مقدم رکھا جائے گا‘‘۔
اور یہ آخری بات اس وجہ سے ہے کہ أنفع الوسائل میں بھی وقف کی تقسیم کے مسئلے میں اس کی صراحت کر دی گئی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ:
’’فتاویٰ میں منقول باتوں پر فتویٰ نہیں دیا جائے گا، ان سے صرف انسیت پیدا کی جائے گی، بشرطیکہ نقلِ مذہب کی بنیادی کتابوں میں ان کے معارض کوئی بات نہیں ہو۔ اور بصورتِ مخالفت فتاویٰ کی طرف کوئی التفات نہ کیا جائے، گا خاص طور پر اس صورت میں کہ فتاویٰ کی کتابوں میں اس کی صراحت بھی نہ ہو کہ فتویٰ اس پر ہے۔‘‘
میں نے (علامہ شامی نے) متاخرین کی کسی کتاب میں ہدایہ کے شارح قاضی القضاۃ علامہ شمس الدین حریری کی کتاب إیضاح الاستدلال علی إبطال الاستبدلال سے منقول دیکھا ہے کہ صدرالدین سلیمان نے فرمایا کہ:
’’یہ فتاویٰ مشایخ کے پسندیدہ اقوال ہی ہیں، پس وہ مذہب کی کتابوں کی ٹکر میں نہیں آسکتے۔ ‘‘
اس قول کو نقل کرنے کے بعد حریری نے فرمایا کہ:
’’صدرالدین کے علاوہ ہمارے مشائخ میں سے اور بھی حضرات ایسا ہی فرمایا کرتے تھے، اور وہی میری رائے ہے۔‘‘
متون معتبرہ: پھر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ متون سے مراد متونِ معتبرہ ہیں، جیسے (۱) بدایۃ المبتدي (۲) مختصر القدوري (۳) المختار (۴) النقایۃ (۵) الوقایۃ (۶) کنزالدقائق اور(۷) ملتقی الأبحر اس لیے کہ یہ سب مذہب کے ان اقوال کو نقل کرنے کے لیے تصنیف کیے گئے ہیں جوظاہر الروایۃ ہیں، اور ملاخسرو ؒ کا متن الغرر اور تمرتاشی غزنوی ؒ کامتن