جیسا کہ یہ طریقہ ہدایہ اور اس جیسی دوسری کتابوں میں ہے ۔ دلیل کے راجح ہونے کی وجہ سے۔
۵۶
وَکَذَا إِذَا مَا وَاحِدًا قَدْ عَلَّلُوْا
لَہٗ وَتَعْلِیْلٌ سِوَاہُ اھْمَلُوْا
اسی طرح جب بھی مصنفین کسی ایک قول کی دلیل بیان کریں، اور اس کے علاوہ قول کو مہمل چھوڑ دیں، یعنی دلیل بیان نہ کریں ۔
فتاویٰ قاضی خان اور ملتقی الابحر کا طریقہ: امام قاضی خان کے فتاویٰ میں جو اقوال سب سے پہلے ذکر کیے گئے ہیں ان کو دوسرے اقوال پر ترجیحی فضیلت حاصل ہے، اس لیے کہ قاضی خان نے اپنے فتاویٰ کے مقدمے میں لکھا ہے:
’’اور جن مسائل میں متاخرینِ فقہا کے بہت سے اقوال ہیں، میںنے ان میں سے ایک یادو قولوں پر اکتفا کی ہے، اور سب سے پہلے اس قول کو ذکر کیاہے جو أظہر ہے، اور آغاز اس قول سے کیا ہے جو أشہرہے، خواہش مندوں کی حاجت پوری کر تے ہوئے اور رغبت کرنے والوں پر آسانی کرتے ہوئے‘‘۔
اور ملتقی الابحر کے مصنف نے بھی اسی طرح معتمد قول کو مقدم بیا ن کرنے کا التزام کیا ہے۔ (انھوں نے مقدمئہ کتاب میں لکھا ہے: قدمت من أقاویلھم ما ھو الأرجح و أخرت غیرہ ۱/۱۰)
ہدایہ،بدائع، شروحِ ہدایہ وشروحِ کنز کا طریقہ: اور ان دوکتابوں کے علاوہ دیگر کتابیں جن میں اقوال کو دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جیسے ہدایہ اور اس کی شرحیں اور کنز الدقائق کی شرحیں اور امام نسفی کی کا فی اور بدائع الصنائع اور ان کے علا وہ دیگر مبسوط کتابیں، ان میں نقلِ اقوال کے وقت مصنفین کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ امام صاحب کا قول آخر میں ذکر کرتے ہیں، پھر ہر قول کی دلیل بیان کرتے ہیں، پھر امام صاحب کے قول کی دلیل اس طرح بیان کر تے ہیں کہ وہ دیگر