ہے۔ (طبقات المسائل والے عنوان سے یہاں تک کا مضمون علامہ شامی ؒ نے دو کتابوں سے اخذ کیا ہے، ایک علامہ بیری کی شرح اشباہ سے، دوسری شیخ اسما عیل نا بلسی ؒ 1 کی شرح درر سے۔
روایت الا صول اور ظاہر الروایہ میں کوئی فرق نہیں
علامہ ابنِ کمال پاشا پررد: مذکور بالاباتوں کے بعد اب جانناچاہیے کہ علامہ ابنِ کمال پاشا نے روایت الاصول اور ظاہر الروایہ میں فرق کیا ہے۔ ہدایہ کی شرح میں عورت پر وجوبِ حج کے مسئلے میں انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
سر خسی ؒ کی مبسوط میں ہے کہ:
’’ظاہر الروایہ یہ ہے کہ عورت پر حج کی ادائیگی اس وقت فرض ہوتی ہے جب اس کے پاس اپنے نفقہ کے علاوہ اپنے محرم کا نفقہ بھی ہو۔ ‘‘
اور محیط اور ذخیرہ میں یہ بیان کیاگیا ہے کہ:
’’حسن بن زیاد کی روایت امام ابو حنیفہ ؒ سے یہ ہے کہ عورت کے پاس جب اپنا اور اپنے محرم کا نفقہ ہو تو اس پر حج کرنا فرض ہوتا ہے، اور امام محمد ؒ سے روایتیں مختلف ہیں۔‘‘
پھر آگے ابن کمال پاشا لکھتے ہیں کہ:
’’یہاں سے ظاہر ہواکہ سرخسی ؒ کی مراد ظاہر الروایہ سے حسن کی امام ابو حنیفہ سے روایت ہے، پس ظاہر الروایہ اور روایت الاصول کے در میان فرق واضح ہوگیا، کیوں کہ اصول سے مراد مبسوط، جامع کبیر، جامعِ صغیر، زیادات اور سیرِ کبیر ہیں، اور ان کتابوں میں حسن کی روایت نہیں ہے۔ یہ سب کتابیں امام محمد کی روایتیں ہیں۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ نوادر کی روایت بھی کبھی ظاہرالروایہ ہوسکتی ہے، اور نوادر کی روایت سے مراد اصول کے علاوہ باقی کتابوں کی روایتیں ہیں۔‘‘
پھر آخر میں ابنِ کمال پاشا تاکید کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’اس بات کو یاد رکھیں، کیوں کہ یہ پہلوہدایہ کے شارحین سے مخفی رہ گیا ہے، اور ہدایہ کے بعض شارحین نے تو صراحت کردی ہے کہ ظاہر الروایہ اور روایت الاصول میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نوادر کی روایت ظاہر الروایہ