’’ہمارے علما کی کتابوں میں سے کسی کتاب میں میری نظر سے نہیں گزراہے کہ ایسا کرنا درست ہے، اور مفتی کو بس اتنا ہی حق ہے کہ وہ اہلِ مذہب کے نزدیک جن کے قول پر فتویٰ دیتا ہے جوبات ثابت ہو اس کو نقل کردے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مستفتی اسی بات کو دریافت کرتا ہے جو اس مذہب کے ائمہ کی رائے ہے، وہ مفتی کے لیے جو بات واضح ہواس کو دریافت نہیں کرتا۔‘‘
اور علما نے اسی قسم کی بات شافعی امام قفال ؒ کے بارے میں نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص ان کے پاس اناج کے ڈھیر کوفروخت کرنے کا مسئلہ دریافت کرنے آتا تو وہ اس سے پوچھتے کہ ’’میرا مذہب معلوم کرنا چاہتا ہے یا امام شافعی ؒکا؟‘‘ اوراسی طرح علما نے قفال ہی کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ کبھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں خود اجتہاد کروں اور میرا اجتہاد امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب کے موافق ہوجائے تو میں سائل سے یہ کہوں گا کہ امام شافعی ؒ کا مذہب تو یہ ہے، مگر میں امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب کا قائل ہوں، کیوںکہ وہ شخص امام شافعی ؒ کا مذہب جاننے اور دریافت کرنے آیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ میں اس کے علم میں یہ بات لے آئو ں کہ میں امام شافعی کے قول کے علاوہ قول پر فتویٰ دیتاہوں۔
اور رہا ضعیف قول پر عمل کرنے کامعاملہ توبظاہر یہ بات اس (مجتہد مفتی ) کے لیے جائز ہے، اور اس کی دلیل خزانۃ الروایات کا یہ قول ہے کہ:
’’آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ ضعیف روایت پر عمل کرے، اگرچہ وہ روایت اس کے مذہب کے خلاف ہو۔‘‘
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجتہد کے ذمے اسی بات کی پیروی لازم ہے جس تک اس کا اجتہاد پہنچ گیا ہے، چناںچہ محقق ابن الہمام ؒ کو آپ دیکھیں گے کہ انھوں نے ایسے کئی مسائل کو تر جیح دی ہے جوفقہ حنفی سے خارج ہیں، اور ایک جگہ تو انھوں نے ایک مسئلے میں امام مالک ؒ کے قول کو ترجیح دی ہے، اورفرمایا ہے کہ ’’یہی وہ قول ہے جس کو میں مذہب بناتا ہوں۔‘‘
اور ہم پہلے تحریر کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں کہ جو شخص بعض مسائل میں مجتہد ہے اجتہاد میں تجزی کے جواز کے قول کی بنا پر جو کہ بر حق قول ہے۔ اس کے ذمے ان مسائل میں تقلید لازم ہے جن میں وہ اجتہاد پر قادر نہیں، اور جن مسائل میں وہ مجتہد ہے ان میں تقلید لازم نہیں ہے۔
ضعیف قول پر یا مذہبِ غیر پر فیصلہ جائز نہیں: میں نے شعر نمبر ۷۲ میں کہا ہے کہ قاضی اپنے مذہب کے ضعیف قول پر فیصلہ نہیں کر سکتا ہے، اسی طرح کسی اور امام کے مذہب پر بھی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ علامہ قاسم ؒ لکھتے ہیں کہ ابوالعباس احمد بن ادریس قرافی مالکی ؒ نے فرمایا ہے کہ:
’’کیاحاکم (قاضی )پر واجب ہے کہ وہ اپنے نزدیک جوراجح قول ہوبس اسی کے مطابق فیصلہ کرے، جیسا کہ مفتی پر واجب