تعارض ہو اور کوئی وجہ ترجیح موجود نہ ہو تو تحری (غور وفکر) سے کام لیاجائے اور دل کی گواہی کے مطابق عمل کیا جائے۔ پھر جب ایک پہلو پر عمل کر لیا تو دوسرے پہلوپر عمل کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی، البتہ اگر تحری سے بڑھ کر کوئی دلیل سامنے آجائے تو دوسرے پہلو پر عمل کیا جاسکتا ہے (غرض جہاں ادلہّ میں تعارض ہوگا وہاں مخلص بھی موجود ہوگا، پھر تعارضِ ادلہ اختلافِ اقوال کا سبب کیسے بن سکتاہے؟)
اور علمائے کرام نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ امام شافعی ؒ کا ارشاد یہ ہے کہ ’’مجتہد تحری کے بغیر بھی دو پہلوئوں میں سے جس پر چاہے عمل کر سکتاہے۔ ‘‘چناں چہ امام شافعی ؒ کے ہر مسئلے میں دو یا زیادہ اقوال ہیں، اور ہمارے ائمہ سے جو ایک مسئلے میں دو روایتیں ہے تو وہ دووقتوں کی ہیں، اس لیے ایک صحیح ہے اور دوسری صحیح نہیں ہے۔ مگر ان میں سے بعد کی روایت معلوم نہیں ہے (یعنی تعارضِ ادلہ شوافع کے نزدیک تو اختلافِ اقوال کا سبب بن سکتا ہے، مگر احناف کی تصریحات کے مطابق اس کی گنجائش نہیں) (التقریروالتحبیر ۳/۴، بحث تعارض)
بنائً علی ھذایہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’اس مسئلے میں امام صاحب سے دوروایتیں ہیں‘‘۔ یہ بات آخری قول معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہی جاتی ہے، اور جہاں یہ تعبیر آتی ہے کہ في روایۃ عنہ کذا یعنی امام صاحب سے ایک روایت اس طرح ہے۔ یہ تعبیر وہاں اختیار کی جاتی ہے جہاں فقہا کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات امام صاحب کا پہلا قول ہے، یا بایں وجہ یہ تعبیراختیار کی جاتی ہے کہ امام صاحب کا وہ قول اصول کی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابوں میں مذکور ہوتاہے، اور یہ دوسری بات أقرب إلی الصواب ہے۔
علامہ شامی ؒ کی رائے: لیکن یہ بات مخفی نہیں ہے کہ علماء نے تعارضِ ادلہ کی بحث میں جوبات بیان فرمائی ہے وہ نا قابلِ فہم ہے، کیوں کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جس مسئلے میں امام صاحب کی دو روایتیں ہوں اس میں کسی پر بھی عمل جائز نہ ہو۔ یہ بات معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہ ان میں سے کون سی صحیح ہے اور کون سی باطل، اور نہ ان دوباتوں میں سے کسی کی امام صاحب کی طرف نسبت درست ہو۔ جیساکہ بعض اصولیوں کے حوالے سے یہ بات پہلے گزرچکی ہے حالاںکہ بے شمار مسائل میں دوروایتیںموجود ہیں۔ اور علما ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں۔ اور اس راجح کو امام صاحب کی طرف منسوب بھی کرتے ہیں۔ پس ظاہر وہی ہے جو امام بلیغی کے حوالے سے پہلے گزرچکا کہ اختلافِ روایات کی وجوہ متعدد قرار دی جائیں، صرف تعارضِ ادلہ کوسبب نہ بنایا جائے۔ البتہ ان بیان کردہ وجوہِ اربعہ کے ساتھ وہ دو وجہیں بھی بڑھادی جائیں جو ہم نے ذکر کی ہیں، یعنی امام کا دو حکموں میں متردد ہونا، اور امام کی رائے میں دو احتمالوں کا ہو نا اور کسی دلیل یاتحری وغیرہ