اور یہ بات جان لیں کہ بہت سے مسائل میں عرف وعادت کا اعتبار کیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کو ایک مستقل اصول قراردیا گیا ہے، چناں چہ علما کہتے ہیں کہ لفظ کے حقیقی معنی استعمال اور عرف و عادت کے قرینے سے چھوڑ دیے جائیں گے۔ (اشباہ کی عبارت پوری ہوئی)
اعتبار عرفِ عام اور عادتِ غالبہ کا ہے: پھر اشباہ (ص: ۹۴) میں بیان کیا ہے کہ عادت کا اعتبار اسی وقت کیا جاتا ہے جب وہ عام یا غالب ہو جائے، اور اسی وجہ سے علما نے بیع کے اس مسئلے میں فر ما یا ہے کہ:
’’اگر کسی جگہ مختلف کرنسیاں رائج ہوں، اور ان کی مالیت اور رواج مختلف ہو، اور کوئی شخص دراہم ودنانیر کے بدلے کوئی چیز بیچے تو اس معاملے کو اس کرنسی کی طرف پھیر دیا جائے گاجس کا رواج عام ہے۔‘‘ ہدایہ (۳/۴) میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ غالب کرنسی ہی متعارف ہے، اس لیے مطلق بیع کو اس کرنسی کی طرف پھیر دیا جائے گا۔ (اشباہ کی عبارت پوری ہوئی)
عرف سے ثابت حکم کا درجہ: اور علامہ بیری کی شرح میں مبسوط سے منقول ہے کہ جوبات عرف سے ثابت ہوتی ہے وہ نص سے ثابت ہونے والی بات کی طرح ہے (الثابت بالعرف کا لثابت بالنص)
عرف بدلنے سے احکام بدلتے ہیں: اس کے بعد یہ بات جاننی چاہیے کہ بہت سے وہ احکام جوصاحب مذہب مجتہد نے اپنے عرف اور اپنے زمانے کے احوال پر بنیادرکھ کر صراحتاً بیان کیے تھے وہ زمانہ بدلنے کی وجہ سے بدل گئے ہیں، اور زمانے کی تبدیلی یا تو لوگوں میں بگاڑ پیداہونے کی وجہ سے ہوتی ہے، یا عام ضرورت پیش آجانے کی وجہ سے، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، متاخرین نے تعلیمِ قرآن پراجارہ کے جوازکا فتوی دیا ہے، اورمتاخرین نے گواہوں میں ظاہری عدالت کافی نہ ہونے کا فتوی دیاہے۔ حالاںکہ یہ دو نوں باتیں امام ابوحنیفہ ؒ کی تصریح کے خلاف ہیں، اور اسی قبیل کے مسائل میں سے ہیں:
۱۔ بادشاہ (گورنمنٹ) کے علاوہ کی طرف سے اکراہ (زبردستی) کا متحقق ہونا۔ حالاں کہ یہ بات امام صاحب کے قول کے خلاف ہے۔ امام صاحب کا ارشاد ان کے اپنے زمانے کے احوال پرمبنی تھا کا بادشاہ کہ علاوہ کی طرف سے اکراہ ممکن ہی نہیں تھا۔ پھر بگاڑ بڑھ گیا، اور غیر سلطان کی طرف سے بھی اکراہ ہونے لگا تو امام محمد ؒ نے اس کا اعتبار کرلیا، اور متاخرین نے امام محمد ؒ کے قول پر فتوی دیا۔