اور الأ شباہ کی شرح میں علامہ بیری ؒ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ شہادتوںکے سلسلے میں بھی فتویٰ امام ابویوسف کے قول پر ہے، میں (علامہ شامی )کہتاہوں کہ اس اضا فے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ شہادت قضا کے متعلقات میں سے ہے۔
اور البحر الرائق ( ۲/۲۰۳) کتاب الدعویٰ میں ہے کہ اگر مدعی علیہ خاموشی اختیار کرے (یعنی مدعی کے دعویٰ کے بارے میں نہ اقرار کرے، نہ انکار کرے )تو طرفین کے نزدیک اس کو منکر قرار دیا جائے گا، اور مقدمے کی کاروائی آگے بڑھائی جائے گی)، مگر امام ابویوسف کے نزدیک اس کو حبس میں رکھا جائے گا، تا آں کہ وہ کوئی جواب دے۔ یہ بات امام سرخسی نے بیان فرمائی ہے، اورفتویٰ ان امور میں جن کا تعلق قضا سے ہے امام ابویوسف کے قول پر ہے، جیساکہ قنیہ اور بزازیہ میں ہے، اور اسی وجہ سے میں نے (علامہ ابنِ نجیم نے ) فتویٰ دیا ہے کہ اس کو حبس میں رکھاجائے، تاآں کہ وہ کوئی جواب دے۔
۳۔ مسائل ذوی الارحام میں امام محمد کاقول مفتی بہ ہے: تیسرا قاعدہ وہ ہے جو فقہ کے متن ملتقی الأبحر (۲/۳۵۱) میں اور اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں اس مسئلے کے ذیل میں ہے کہ ذوی الا رحام پرترکہ کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟ سب حضرات فرماتے ہیں کہ وبقول محمد یفتی (اور امام محمد ؒ کے قول پرفتویٰ دیا جائے گا)، اور علا مہ علاء الدین علی بن محمد طرابلسی (و: ۹۵۰ھ، ف: ۱۰۳۲ھ) نے ملتقی الا بحر کی کتاب الفرائض کی شرح سکب الأنہر میں فر مایا ہے کہ ذوی الارحام وارث بنانے کے تمام مسائل میں امام محمد کے قول پر فتوی ہے اور ذوی الارحام کی توریث امام ابو کو حنیفہ ؒ کی دوروایتوں میں سے مشہور روایت ہے، اور اسی پر فتویٰ دیاگیا ہے۔ شیخ سراج الدین محمد بن عبدالرشید سجاوندی ؒ نے بھی اپنے فرائض کی شرح میں یہی فرمایا ہے 1 ، اور کافی میں ہے کہ:
’’اور امام محمد کا قول امام ابو حنیفہ کی دوروایتوں میں سے مشہور روایت ہے، تمام ذوی الارحام کے سلسلے میں، او راسی پر فتویٰ ہے۔‘‘
۴۔ استحسان کوقیاس پر ترجیح حاصل ہے: چوتھا قاعدہ وہ ہے جو اکثر کتابوںمیں مذکورہے کہ جب کسی مسئلے میں قیاس اوراستحسان جمع ہوں تو استحسان کو قیاس پر ترجیح دی جائے گی، البتہ چند مسائل مستثنیٰ ہیں، اور وہ گیارہ ہیں، جیساکہ ناطفی کی اجناس میں ہے، اور ان کو علامہ ابننجیم نے بھی منار کی شرح میں ذکر کیا ہے۔ پھر ذکرکیاہے کہ نجم الدین نسفی نے ان کی تعداد بائیس تک پہنچائی ہے، اور ابنِ نجیم نے اس سے پہلے تلویح کے حوالے سے ذکرکیا ہے کہ رجحان کا صحیح مطلب یہاں