اورعلامہ باجی ؒ نے یہ قصہ بیان کیاہے کہ ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا‘مفتیوں نے اس سلسلے میں جو فتویٰ دیاوہ باجی کے خلاف تھا۔ پھر جب باجی نے خودمسئلہ دریافت کیاتومفتیوںنے معذرت کی کہ ہمیں معلوم نہیںتھاکہ یہ آپ کا واقعہ ہے۔ اور انھوں نے دوسری روایت پرفتویٰ دیا جو باجی کے موافق تھا۔ باجی کہتے ہیںکہ تمام قابل لحاظ مسلمانوں کے اجماع سے ایسا کرناجائزنہیںہے۔ اور اصولِ اقضیہ میں ہے کہ:
’’مفتی اورقاضی کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ مفتی حکم کی اطلاع دیتاہے اور قاضی اس کو لازم کرتا ہے۔ (یہاں علامہ قاسم بن قطلوبغا کی عبارت پوری ہوئی)۔
اس کے بعد علامہ قاسم نے نقل کیا ہے کہ:
’’مرجوح روایت کے مطابق فیصلہ کرنایافتویٰ دینااجماع کے خلاف ہے۔‘‘
نوٹ: اگرمختلف اقوال میںسے کسی قول کی ترجیح موجودنہ ہوتواس کا حکم آگے شعرنمبر۶۶کی شرح میں آرہا ہے۔
طبقاتِ فقہا
میںنے نویںشعرکے دوسرے مصرعے میں اہلِ ترجیح کی تصحیح کی قیدلگائی ہے۔اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی بھی عالم کی ترجیح کا اعتبارنہیں (بلکہ جن فقہا میںترجیح کی اہلیت ہے انہی کی ترجیح معتبر ہے) علامہ شمس الدین احمدبن سلیمان نے جن کی شہرت ابنِ کمال 1 پاشا 2 کے نام سے ہے اپنے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ:
’’مقلد مفتی کے لیے اس شخص کاحال جاننا ضروری ہے جس کے قول پر وہ فتویٰ دے رہاہے۔ حال جاننے کا مطلب محض نام ونسب اور وطنی نسبت جاننا نہیں ہے کہ محض اتنی بات بالکل بے فائدہ ہے، بلکہ یہ جاننا ضروری ہے کہ مسائل روایت