کے خلاف ہے جوانھوں نے البحرالرائق ۶/۲۷۰ میں بیان کی ہے۔
امام ابن الہمام ؒ کامرتبہ:
تنبیہ: بحر کی عبارت صریح ہے کہ محقق ابن الہمام ؒ اصحابِ ترجیح میں سے ہیں، کیوں کہ ابنِ نجیم نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ:
ھو أھل للنظر في الدلیل۔ (بحر: ۶/۲۷۰)
’’وہ دلیل میں غوروفکر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
پس ہم ان روایات یا اقوال میں ان کی پیروی کر سکتے ہیں جن کو وہ مدلل کر تے ہیں، یا ترجیح دیتے ہیں، بشرطیکہ وہ مذہب کے دائرے سے نہ نکلیں، کیوںکہ ان کی کچھ رائیں ایسی بھی ہیں جن میں انھوں نے مذہب کی مخالفت کی ہے۔ ان میں ان کی پیروی نہیں کی جائے گی۔ جیساکہ یہ بات ان کے شاگرد علامہ قاسم ؒ نے کہی ہے۔
اور ان میں یہ صلاحیت کیسے نہیں ہو سکتی، ان کے بارے میں ان کے ایک معاصر برہان أنباسی نے یہ فرمایا ہے کہ: لوطلبت حجج الدین ماکان في بلدنا من یقوم بہا غیرہ
’’اگر میں دین کے دلائل جاننا چاہوں تو ہمارے شہر میں ابن الہمام کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو ان کو پیش کر سکے۔‘‘
میں (علا مہ شامی) کہتا ہوں بلکہ علامہ محقق الاسلام علی مقدسی 1 نے منظوم کنز کی شرح میں باب نکاح الرقیق میں صراحت کی ہے کہ ابن الہمام اجتہاد کے مربتے تک پہنچے ہوئے ہیں۔
علامہ قاسم کا مقام: اور اسی طرح خود علامہ قاسم بن قطلوبغا شہ سواروں کے اسی دستے کے ایک فرد ہیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے ایک رسالے کے شروع میں جس کا نام رفع الأشتباہ عن مسئلۃ المیاہ ہے لکــــھا ہے کہ:
جب ہما رے علما نے (اللہ ان سب سے راضی ہو) ان لوگوں کو جن میں غور وفکر کی صلاحیت ہے، تقلیدِ محض سے روک دیاہے، جیسا کہ شیخ امام عالم علامہ ابو اسحاق ابراہیم بن یوسف 2 نے اس کو روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے امام ابویوسف ؒ نے امام ابوحنیفہ ؒ سے روایت کر تے ہوئے بیان کیا ہے کہ آپ نے ارشادفر مایا کہ ’’کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ ہمارے قول پر فتویٰ دے جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ ہم نے کہاں سے وہ قول کیا ہے‘‘۔ تو جب یہ ممانعت میرے سامنے آئی تو میں نے ائمہ کے اقوال کے مآخذ تلاش کیے، اور اﷲکے فضل سے ان کی بڑی مقدار پر قابو پالیا، اور بہت سے مصنفین کی کتابوں میں جو باتیں ہیں ان کی تقلید پر میں نے قناعت نہیں کی إلخ ۔