وَذَانِ مِنْ جَمِیْعِ تِلْکَ أَقْوَی
اسی طرح (تصحیح کیا گیا ہو) بہ یفتی اور علیہ الفتوی سے، اور یہ دو لفظ ان سب الفاظ سے قوی تر ہیں۔
تصحیحِ مسائل کی اصطلاحات اور ان کے مراتب: فتاوی خیریہ کے آخر میں (۲/۲۳۱) لکھا ہے کہ قدوری کی شرح جامع المضمرات والمشکلات 1 کے شروع میں ہے کہ فتویٰ دینے کے لیے علامتیں یہ ہیں:
(۱) علیہ الفتوٰی (اسی قول پر فتوٰی ہے) (۲) بہ یفتیٰ (اسی قول پر فتویٰ دیا جاتا ہے ) (۳) بہ نأخذ(ہم اسی کو لیتے ہیں) (۴) علیہ الاعتماد (یہی قول قابلِ اعتماد ہے) (۵) علیہ عمل الیوم (آج کل اسی پر عمل ہے) (۶) علیہ عمل الأمۃ (اسی پر امت کا عمل ہے) (۷) ھو الصحیح (یہی صحیح ہے) (۸) ھو الأصح (یہی صحیح تر ہے) (۹) ھوالأظھر (یہی زیادہ واضح ہے ) (۱۰) ھو المختار في زماننا (یہی ہمارے زمانے میں پسندیدہ ہے۔ (۱۱) ھو فتویٰ مشایخنا( یہی ہمارے علماء کا فتویٰ ہے) (۱۲)ھو الأشبہ (یہی صحیح قول سے زیادہ مشابہ ہے) (۱۳) ھو الأوجہ (یہی زیادہ مدلل ہے )
اور ان کے علاوہ وہ الفاظ جو اس کتاب (قدوری ) کے متن میں اپنی جگہ مذکور ہیں، ایسا ہی حاشیہ بزدوی میں ہے۔ 2 (جامع المضمرات کی عبارت پوری ہوئی) اور ان الفاظ میں سے بعض، بعض سے زیادہ موکد ہیں ۔ مثلاً
۱۔ لفظِ فتویٰ، لفظ صحیح، أصح اور أشبہ وغیرہ سے زیادہ مؤ کد ہے۔
۲۔ اور لفظِ بہ یفتی، لفظ الفتوی علیہ سے زیادہ مؤکد ہے۔
۳۔ اور لفظِ أصح، لفظ صحیح سے زیادہ موکد ہے۔
۴۔ اور لفظِ أحوط، لفظِ احتیاط سے زیادہ مؤکد ہے (فتاویٰ خیریہ کی عبارت پوری ہوئی)۔
صحیح اور أصح میں زیادہ مؤکد کون ہے؟ لیکن منیۃ المصلي کی شرح کبیری (ص: ۵۸) میں مسِ مصحف کی بحث میں ہے کہ جوبات ہم نے اساتذہ سے حاصل کی ہے وہ یہ ہے کہ جب دو معتبر اماموں میں کسی مسئلے کی تصحیح میں تعارض ہو جائے، ایک کہے کہ صحیح یہ ہے، اور دوسرا کہے کہ ٔاصح یہ ہے، تو جو صحیح کہتا ہے اس کاقول لینا زیادہ بہتر ہے، اس امام کے قول سے