کی۔ پس پہلی وجہ کیوں کر درست ہوسکتی ہے؟ اور دوسری بہت ہی مستبعد معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ پچھلی دو وجہوں پر اکتفا کیاجائے۔ مگر یہ بات ہر اس جزو میں نہیں ہے جس میں روایتیں مختلف ہوں، کیوں کہ کبھی ان میں سے ایک روایت ایک مصنف کے یہاں ہوتی ہے اور دوسری دوسرے مصنف کے یہاں، پس اس صورت میں پہلی دو وجہیں بھی درست ہوسکتی ہیں، نیز پچھلی دو وجہوں پر اکتفا وہاں کیا جاسکتا ہے جب کہ مسئلے میں قیاس واستحسان اور فتویٰ وتقویٰ کی گنجائش ہو۔ غرض جہاں راوی مختلف ہوں وہاں پہلی دو وجہیں بھی درست ہوسکتی ہیں۔ 1
اختلافِ روایت کے دو اور سبب: اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اختلافِ روایت کی وجوہ میں درج ذیل صورتیں بھی ہیں۔
۱۔ کسی حکم میں مجتہد کا متردد ہونا بایں وجہ کہ اس کے نزدیک دلائل میں تعارض ہے، اور کوئی وجہ ترجیح موجود نہیں ہے۔
۲۔ ایک ہی دلیل کے مدلول و مفہوم میں مجتہد کی رائے کا مختلف ہونا، کیوںکہ دلیل کبھی دو یازیادہ وجوہ کو محتمل ہوتی ہے۔ اس لیے مجتہد ہر احتمال پر ایک جواب کی بنیاد رکھتا ہے۔
راجح قول ہے اور مرجوح روایت: پھر کبھی مجتہد کے نزدیک ایک احتمال کو تر جیح حاصل ہوجاتی ہے تو وہ احتمال اس کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے (اور دوسرا مرجوح احتمال روایت کی صورت میںباقی رہ جاتا ہے) فقہا ایسی صورت میں یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں کہ ’’امام صاحب کاقول (مذہب) یہ ہے، اور ان سے ایک روایت یہ ہے۔ ‘‘ اور کبھی کسی وجہ کو تر جیح حاصل نہیں ہوتی تودونوں جانب امام کی رائے مساوی رہتی ہے۔ آپ فقہا کو دیکھیں گے کہ وہ ایک ہی مسئلے میں امام صاحب سے دو قول اس طرح نقل کر تے ہیں کہ ان دونوں قولوں کا امام صاحب کے نزدیک مساوی ہونا مفہوم ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں کہ ’’اس مسئلے میں امام صاحب سے دوروایتیں یا دوقول ہیں۔‘‘
عدمِ تر جیح کی صورت میں دونوں ہی قول ہیں: اور ہم پہلے امام قرافی ؒ کے حوالے سے بیان کر آئے ہیں کہ غیر راجح قول پر فیصلہ کرنا یا فتویٰ دینا نہ مجتہد کے لیے جائز ہے نہ مقلد کے لیے۔ البتہ اگر مجتہد کی نظر میں دلائل متعارض ہوں، اور وہ کسی دلیل کو تر جیح نہ دے سکے تو جائز ہے کہ دو نوں قولوں میں جس پر چاہے فیصلہ کرے۔ کیوں کہ اس صورت میں