اس صورت میں اس قول کو اختیار کرے گا جس کی دلیل راجح ہو، جیساکہ اس نے مذکورہ بالا مسئلے میں کیاتھا۔
صورتِ دوم کی مزید تفصیل: اور مذکورہ بالا گفتگو سے معلوم ہوا کہ جب صاحبین میں سے کوئی امام صاحب کے ساتھ ہوتو بغیر اختلاف کے امام صاحب کا قول لیا جائے گا۔ اور اسی وجہ سے قاضی خان ؒ نے فرمایا ہے کہ:
’’اگر مسئلہ ہمارے ائمہ کے درمیان مختلف فیہ ہو۔ پس اگر صاحبین میں سے کوئی ایک امام صاحب ؒ کے ساتھ ہو تو ان دونوں کاقول لیا جائے گا، یعنی امام صاحب کا اور صاحبین میں سے ان صاحب کا جو امام صاحب کے موافق ہیں، شرائط وافر ہونے کی وجہ سے، اور ان کے قول میں دلائلِ صحت اکھٹا ہونے کی وجہ سے، اور اگر صاحبین دونوں ہی امام صاحب کے خلاف ہوں تو اگر ان کا اختلاف عصروزمان کا اختلاف ہے، جیسے گواہوں کی ظاہری حالت پر قاضی کافیصلہ کرنا، تو مفتی صاحبین کا قول لے گا لوگوں کے احوال میں تغیر رونما ہونے کی وجہ سے، اور مزارعت اور مساقات وغیرہ میں صاحبین کا قول اختیار کرے گا اس قول پر متأخرین کے اکٹھا ہونے کی وجہ سے۔ اور دیگر مسائل میں بعض حضرات کی رائے یہ ہے، کہ مجتہد مفتی کو اختیار ہوگا،وہ اس قول پر فتویٰ دے گا جو اس کی رائے میں راجح ہو۔ اور حضرت ابن المبارک ؒ فرماتے ہے کہ امام صاحب کا قول لے گا (فتاویٰ قاضی خان بر حا شیہ عالم گیری: ۱/۳)
صورتِ دوم کے حکم پر اعتراض: میں کہتاہوں: مگر ہم پہلے یہ بات بیان کر آئے ہیں کہ امام صاحب سے جو قول منقول ہے کہ ’’إذا صح الحدیث فھو مذھبي‘‘ وہ اس صورت پر محمول ہے کہ مذہب سے بالکلیہ خروج لازم نہ آئے، جیساکہ سابقہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے، اور اس بات کا مقتضا یہ ہے کہ دلیل (حدیث) کی پیروی کی جاسکتی ہے، اگر چہ وہ مدلل قول اس قول کے خلاف ہو جس میں امام صاحب کی صاحبین میں سے کسی ایک نے موافقت کی ہے ( یعنی مذکورہ بالا صورِ ثلاثہ میں سے دوسری صورت میں مجتہد مفتی اگر حدیث سے تائید ہوتی ہو تو صاحبین میں سے کسی کا قول لے سکتا ہے، کیوں کہ اس صورت میں مذہب سے خروج لازم نہیں آتا۔ حالاںکہ اوپر صورتِ دوم میں امام صاحب کے قول کو فتویٰ کے لیے متعین کیاگیا ہے، اور مجتہد مفتی کو بھی اختیار نہیں دیاگیا )۔
تائیدی حوالے : ۱۔ چنانچہ البحر الرائق میں فتاویٰ تاتارخانیہ 1 سے نقل کیاگیا ہے کہ: