ہے۔ رہا (فقہی) روایت کا مفہومِ مخالف تو وہ حجت ہے جیسا کہ غایۃ البیان کی کتاب الحج میں ہے۔ ‘‘(حموی ۲/۳۳۶)
ابنِ نجیم کا یہ قول پہلے گزری ہوئی بات کے خلاف ہے کہ مفہومِ مخالف صرف شارع کے کلام میں معتبر نہیں ہے۔
جواب: میں (علامہ شامی) کہتا ہوں کہ متاخرین کی رائے وہی ہے جس کو ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
نصوصِ شرعیہ میں مفہومِ مخالف اور امام محمد ؒ : اور علامہ بیری ؒ نے شرح اشباہ میں لکھا ہے کہ:
’’وہ بات جوفتاوی ظہیریہ میں ہے وہ یہ ہے کہ مفہوم مخالف سے استدلال جائز نہیں، اور یہی ہمارے علما کی ظاہرِ روایت ہے، اور وہ بات جس کو امام محمد ؒ نے سیرِ کبیر میں ذکر فرمایا ہے کہ مفہومِ مخالف سے استدلال جائز ہے وہ بات ظاہرِ روایت کے خلاف ہے۔‘‘
کشف کے حواشی میں کہا ہے کہ میں نے فوائدِ ظہیر یہ کے باب مایکرہ في الصلوٰۃ میں دیکھا ہے کہ مفہوم سے استدلال جائز ہے، اس کو شمس الائمہ سرخسی ؒ نے سیرِ کبیر میں ذکر کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ امام محمد ؒ نے سیرِ کبیر میں مفہوم مخالف سے استدلال کے جواز پر مسائل کی بنیادرکھی ہے، اور امام خصاف ؒ کا میلا ن بھی اسی طرف ہے، اور انھوں نے کتاب الحیل میں مسائل کا اسی پر مدار رکھا ہے، اور مصفّٰی میں ہے کہ ’’کسی چیز کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ اس کے ماسوا کی نفی پر دلالت نہیں کر تا، ہم کہتے ہیں کہ روایاتِ فقہیہ میں، لوگوں کی باہمی گفتگو میں اور دلائل عقلیہ میں اس کے ماسوا کی نفی پر دلالت کرتا ہے‘‘ (مصفّٰی کی عبارت پوری ہوئی جواس کی کتاب النکاح سے منقول ہے)
اور خزانۃ الروایات میں ہے کہ فقہی روایت میں مذکور قید اس کے ماسوا کی نفی کرتی ہے، اور فتاوی سراجیہ میں ہے کہ لوگوں کی باہمی گفتگو میں جو از قبیلِ اطلاعات ہے کسی چیز کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا بالیقین اس کے ماسوا کی نفی پر دلالت کرتا ہے، سرخسی ؒ نے ایسا ہی بیان کیا ہے (سراجیہ کی عبارت پوری ہوئی)۔
میں (علامہ بیری ؒ)کہتاہوں کہ ظاہر یہ ہے کہ عمل اس بات پر ہے کہ جو سیرِ کبیر میں ہے، جیسا کہ اس کو خصاف نے کتاب الحیل میں اختیار کیا ہے، اور ہم نے اس کی مخالفت کرنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم (علامہ بیری ؒ کی عبارت پوری ہوئی)۔
علامہ شامی ؒ وضاحت کرتے ہیں کہ معمول بہ مفہومِ مخالف سے استدلال کا جواز ہے، مگر ہر جگہ نہیں، بلکہ شارع کے کلام کے علاوہ میں ،جیسا کہ آپ یہ بات اس تفصیل سے جان چکے ہیں جو پہلے عرض کر آئے ہیں، ورنہ جوبات میں نے سیرِ کبیر میں دیکھی ہے وہ تو مفہوم مخالف پرعمل کا جواز ہے شارع کے کلام تک میں۔ کیوںکہ امام محمد ؒ نے باب آنیۃ المشرکین وذبائحھم میں ذکرکیا ہے کہ دارالحرب کی عیسائی عورتوں سے نکاح نا جائز نہیں ہے، اور امام محمد ؒ نے اس پر حضرت علی ؓ کی