صریح جزئیہ نہ ملنے کی وجہ: اور غالب گمان یہ ہے کہ اس مفتی کا صراحت نہ پانا اس کی واقفیت کی کمی کی وجہ سے ہے، یا مسئلہ مطلوبہ کے ذکر کامحل نہ جاننے کی وجہ سے ہے، کیوں کہ شاید ہی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، مگر اس کا کتبِ مذہب میں ضرور تذکرہ ہوتا ہے۔
نظیر سے فتویٰ نہ دیا جائے: اور کسی نظیر پر اکتفا نہ کیا جائے جو واقعے سے ملتی جلتی ہو، اس لیے کہ ممکن ہے اس واقعے اور اس نظیر کے درمیان فرق ہو، جس تک اس مفتی کی نظرنہ پہنچ سکی ہو، کیوں کہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے درمیان اور ان کی نظیروں کے درمیان علما نے فرق بیان کیا ہے، یہاں تک کہ علما نے اس مقصد کے لیے فروق کی کتابیں لکھی ہیں، اور اگر معاملہ ہماری عقلوںکے حوالے کیا جاتا تو ہم ان میں کوئی فرق نہ کر پاتے۔
قواعدِ کلیہ سے بھی فتویٰ دینا جائز نہیں: بلکہ علا مہ ابنِ نجیم ؒ نے فوائدِ زینیہ میں لکھا ہے کہ قواعدِ کلیہ اور ضوابطِ عامہ سے فتویٰ دیناجائز نہیں ہے۔ مفتی کے ذمے صریح حوالہ دینا ضروری ہے، جیساکہ علما نے اس کی صراحت کی ہے، اور علامہ ابنِ نجیم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’چاروں مذاہب میں یہ بات طے شدہ ہے کہ فقہی قواعد اکثری ہیں ، کلی نہیں ہے۔ ‘‘
علامہ بیری ؒ نے یہ بات نقل کی ہے، لہٰذا جومفتی صریح حوالہ نہ پائے اس پر لازم ہے کہ جواب دینے میں توقف کر ے، یا عالم سے پوچھے اگر چہ وہ دوسرے شہر میں ہو، جیسا کہ یہ بات اس عبارت سے معلوم ہوچکی ہے جو ہم فتاویٰ خانیہ کے حوالے سے لکھ آئے ہیں، فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ اگر مفتی مجتہدین میں سے نہ ہو تو اس کے لیے فتویٰ دینا جائز نہیں ہے، مگر نقل کے طور پر، لہٰذا فقہا کے ان اقوال کو نقل کرے جو اس کو یاد ہوں۔
نظیرسے فتویٰ دینا کہاں جائز ہے؟ ہاں بعض مرتبہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کا عرف پر مدار ہوتا ہے، جو نصوصِ شرعیہ کے مخالف نہیں ہوتے تو ان میں مفتی نظائر کے مطابق فتویٰ دے سکتا ہے، جیسا کہ ہم اس کو اس نظم کے آخر میں